Updated: March 08, 2025, 10:02 PM IST
| Jerusalem
عالمی سطح پر سب سے زیادہ ’’اخلاقی‘‘ خیال کی جانے والی اسرائیل فوج کے درجنوں ویڈیوز منظر عام پر ہیں جن میں وہ غزہ، لبنان اور شام میں لوٹ مار کرتے نظر آرہے ہیں۔ لوٹ مار کے سامان میں تسبیحات سے لے کر گھر کا فرنیچر اور الیکٹرانکس آلات تک شامل ہیں۔ اور اب اسرائیلی فوجی لوٹ مار کی اشیاء کو پرائیوٹ ٹیلی گرام چینل پر فروخت کررہے ہیں۔
ایک اسرائیلی فوجی چوری کئے ہوئے مال کے ساتھ۔ تصویر: ایکس
عبرانی زبان کے اخبار ہامکوم ہاشم بی گیہنوم کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی فوجی غزہ کے ساتھ لبنان میں فلسطینیوں کے گھروں سے چوری شدہ قیمتی سامان فروخت کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ ۴؍ مارچ کو شائع ہونے والی رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں اور کمانڈروں کی گواہیوں کا حوالہ دیا گیا ہے جنہوں نے محصور انکلیو میں لوٹ مار کے اپنے تجربات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتنی لوٹ مار دیکھی ہے کہ اب انہیں حیرانی نہیں ہوتی۔ اخبار کے مطابق چوری ہونے والی اشیاء میں نقدی میں بڑی رقم اور قیمتی زیورات سے لے کر کمپیوٹر، اسمارٹ فونز، الیکٹرانک آلات، فرنیچر، کپڑے اور کاسمیٹکس تک شامل ہیں۔ فلسطینی اسکارف کیفہ ، قالین اور تسبیحات کو بھی بطور یادگار چوری کیا گیا ہے۔
ٹی آر ٹی گلوبل کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی لوٹی ہوئی اشیاء فروخت کرنے کیلئے فیس بک مارکیٹ پلیس سمیت مختلف ڈجیٹل پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر لین دین بند اور نجی ٹیلی گرام گروپس میں ہوتے ہیں، جن تک رسائی صرف دعوت کے ذریعے ہوتی ہے اور سخت جانچ پڑتال کے ساتھ مشروط ہوتی ہے، اکثر وہی پلیٹ فارم جہاں منشیات اور ہتھیاروں کی تجارت ہوتی ہے۔ رپورٹ میں نہال بریگیڈ کے ایک سپاہی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’پہلے راؤنڈ کے دوران، میں اور میرا پلاٹون کمانڈر سپاہیوں کے تھیلوں میں یہ دیکھنے کیلئے جاتے تھے کہ انہوں نے کیا چوری کیا ہے۔ وہاں چھوٹی سے چھوٹی چیز تک بطور یادگار چوری کی جاتی ہے۔ ‘‘ ایک اور سپاہی نے اخبار کو بتایا کہ ’’ہم ہتھیاروں کی جانچ کا بہانہ بناکر چھاپہ مارتے اور وہاں سے تسبیحات چوری کرتے۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ ’’ہم تسبیحات کیلئے پورے گھر کو تہس نہس کردیتے تھے۔‘‘
جیسے جیسے لوٹ مار بڑے پیمانے پر ہوتی گئی، فوجیوں نے معمول کے مطابق غزہ میں املاک تک چھین لی گئیں۔ لوٹ مار کا مال بذریعہ فوجی گاڑی ٹھکانے تک پہنچایا جاتا تھا۔ فوجی نے مزید بتایا کہ ’’ابتداء میں ہم لوٹ مار کا مال ایک دوسرے سے چھپاتے تھے مگر پھر عادت سی ہوگئی اور پھر ہم یہ بتانے میں فخر محسوس کرنے لگے کہ ہم نے کتنا قیمتی مال چوری کیا ہے۔ صرف فوجی ہی نہیں اعلیٰ کمانڈر تک چوری کرتے ہیں۔ اکثر گروہ کی شکل میں لوٹ مار کی جاتی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: رمضان: مسجد اقصیٰ میں ۹۰؍ ہزار فلسطینیوں نے نمازِ جمعہ ادا کی
اگرچہ اسرائیلی قانون بھی لوٹ مار کی ممانعت کرتا ہے، لیکن اسرائیلی فوجی انصاف کا نظام اپنے فوجیوں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہنے کیلئے جانا جاتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں، ایک اسرائیلی واچ ڈاگ نے رپورٹ کیا تھا کہ ۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۱ء کی مدت میں لوٹ مار کے معاملات میں صرف ایک فیصد اسرائیلی فوجیوں پر مقدمہ چلایا گیا۔ بدانتظامی کے بے تحاشا ثبوتوں کے باوجود، مقدمہ نہیں چلایا جاتا اور اگر ایسا ہو بھی تو بغیر کسی کارروائی کے اسے خاموشی سے بند کردیا جاتا ہے۔