احمد نگر میں کانف ناتھ یاترا کے دوران مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی قرارداد کی مقامی سطح پر مخالفت ، تعلقہ انتظامیہ نے بھی یاترا کے منتظمین کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا۔
EPAPER
Updated: February 26, 2025, 12:17 PM IST | Ahmednagar
احمد نگر میں کانف ناتھ یاترا کے دوران مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی قرارداد کی مقامی سطح پر مخالفت ، تعلقہ انتظامیہ نے بھی یاترا کے منتظمین کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا۔
حال ہی میں احمد نگر کے پاتھرڈی تعلقے میں گرام پنچایت نے ایک تجویز منظور کی ہے کہ ہولی کےموقع پر شروع ہونے والی کانف ناتھ یاترا کے دوران مسلم دکانداروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یاترا کے منتظمین اور گرام پنچایت کے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ مسلم دکاندار ان کی رسومات کی پیروی نہیں کرتے اور غیر قانونی کام کرتے ہیں۔ پاتھرڈی گرام پنچایت اور یاترا کے منتظمین کے اس موقف کی مقامی سطح پر مخالفت ہو رہی ہے۔ جبکہ مقامی حکام نے بھی اس تعلق سے انہیں نوٹس جاری کیا ہے۔ وزیر حسن مشرف نے کہا ہے کہ وہ اس تعلق سے وزیر اعلیٰ سے بات کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے: منترالیہ میں کسان کی خودکشی کی کوشش، ساتویں منزلہ سے حفاظتی جال پرگرا
یاد رہے کہ ایک روز قبل سرپنچ سنجے مرکڑ نے بیان دیا تھا کہ ہولی سے گڑی پاڑوا تک ہونے والی یاترا کے دوران ہم دکھ میں ہوتے ہیں، نہ تیل میں پکی ہوئی چیزیں کھاتے ہیں نہ گدی پر بیٹھتے ہیں، شادی بیاہ بھی نہیں کرتے حتیٰ کہ کھیتی باڑی کا کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ جبکہ مسلم دکاندار ان باتوں کا پاس نہیں رکھتے، ساتھ ہی ۲؍ نمبر کے دھندے کرتے ہیں ۔ اس تعلق سے بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مسلم دکانداروں نے کہا ہے کہ ’’ یہ قرار داد لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر منظور کی گئی ہے۔ جس میٹنگ میں یہ قرار داد پیش کی گئی وہ گھر کل یوجنا کے تعلق سے بات کرنے کیلئے بلائی گئی تھی۔ اسی میں سب کے دستخط لے لئے گئے اور قرار داد منظور کر لی گئی ۔ ‘‘ ایک دکاندار نے کہا ’’ اگر ہم (مسلمان) غیر قانونی دھندے کرتے ہیں تو بتایا جائے کہ اس کی رپورٹ کس پولیس اسٹیشن میں لکھی گئی ہے؟ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہم پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ‘‘ ان مسلم دکانداروں نے اس قرار داد کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ہم اس قرارداد کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے مٹھی بھر لوگ مڑھی میں دہشت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘
احمد نگر کے ضلع کلکٹر سدھا رام سالی مٹھ نے میڈیا میں بیان دیا ہے کہ ’’ ہمارے پاس اس تجویز کے تعلق سے عرضی آئی ہے۔ ہم نے اسے ضلع پریشد کے سی ای او کے پاس بھیج دیا ہے۔ سی ای او دیکھیں گے کہ یہ تجویز (قانونی طور پر ) مناسب ہے یا نہیں اس کے بعد وہ اس پر فیصلہ کریں گے۔ انہیں اس کا اختیار حاصل ہے۔ ‘‘ ادھر پاتھرڈی تعلقے کے گٹ وکاس ادھیکاری شیواجی کامبلے کا کہنا ہے کہ ہم نے گرام سیوک کو نوٹس بھیجا ہے اور یہ پوچھا ہے کہ کس بنیاد پر یہ قرار داد منظور کی گئی ہے۔ کامبلے بتاتے ہیں کہ ’’ قرار داد میں لفظ ’مسلم ‘ کیوں استعمال کیا گیا ہے؟ یہ سوا ل بھی ہم نےپوچھا ہے۔ گرام سیوک کا جواب آنے کے بعد ہم آگے کی کارروائی کریں گے۔ ’’
مڑھی گرام سبھا کی اس تجویز کے تعلق سے مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنان میں تشویش ہے۔ مقامی صحافی وجے سنگھ ہولم کہتے ہیں کہ ’’ گائوں والوں کی یہ بات تو مانی جا سکتی ہے کہ جو قصور وار ہے یا جو غلط کام کر تا ہے اس پر پابندی عائد کی جائے لیکن ایک پوری قوم کو یا کسی قوم پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ۔ ‘‘ ہولم کہتے ہیں ’’ کسی پر شبہ ہے تو اس کے کردار کی جانچ کرنا اور اسے شہر بدر کرنا یہ کام انتظامیہ کا ہے، وہ یہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح کسی مذہب کو نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے۔‘‘ پاتھرڈی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ہری ہر گرجے کا کہنا ہے کہ ’’ اس طرح سے ایک ہی مذہب کے لوگوں کی دکانوں پر پابندی عائد کرنا آئین کے خلاف ہے۔ یہ دو قوموں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ سماجی طور پر نیم پختہ لوگ اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ ریاست میں آج بھی بیشتر مقامات پر سماجی ہم آہنگی قائم ہے، اسے نقصان نہ پہنچے اس کا دھیان رکھنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔‘‘
میڈیا نے اس تعلق سے مہایوتی حکومت میں شامل وزیر حسن مشرف سے بھی سوال کیا۔ جواب میں مشرف نے کہا ’’ میں نے اس تعلق سے پڑھا ہے۔ میں وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس سے اس معاملے میں بات کروں گا۔ ‘‘ یاد رہے کہ اتر پردیش میں جاری کمبھ میلےمیں مسلمانوںکے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسی سے متاثر ہو کر کانف ناتھ یاترا میں بھی کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی تجویز پیش کی تھی۔ بی جے پی کی مقامی قیادت نے اس تجویز کی حمایت کی ہےلیکن بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے۔ یاد رہے کہ احمد نگر میں ہندو مسلم اتحادکی روایت عام رہی ہے۔