ایک سال میں ملک دشمنی اور دہشت گردی سے متعلق کیسوں میں ۳۴، فسادات میں مجرمانہ سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۲۲؍ جبکہ مختلف دیگر کیسوں سے ۸؍ ملزمین کو رہا ئی دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
EPAPER
Updated: March 26, 2025, 9:07 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai
ایک سال میں ملک دشمنی اور دہشت گردی سے متعلق کیسوں میں ۳۴، فسادات میں مجرمانہ سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۲۲؍ جبکہ مختلف دیگر کیسوں سے ۸؍ ملزمین کو رہا ئی دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ہندوستان میں عدلیہ کے رویہ میں ایک عجیب بے چین کرنے والی تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔ یہ تبدیلی مقننہ سے لے کر عدلیہ تک پہنچ چکی ہے۔ بیشتر صوبوں کی نچلی عدالتیں حساس معاملات میں یکطرفہ فیصلہ سنا رہی ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت یا فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس زیادتی کے شکار افراد کے مقدمات کی پیروی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہی نہیں عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں کو بھی اب نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی متاثرین کی مدد کے اپنے مشن پر قائم ہے اور نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔ اس ضمن میں جمعیۃ علما ءمہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی سے ہوئی بات چیت قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔
یہ بھی پڑھئے: گجرات: واحد مسلم رکن اسمبلی کی توہین آمیزحوالوں سے تحفظ کیلئے اسپیکر سے درخواست
گلزار صاحب کے انتقال کے بعد بم دھماکہ جیسے حساس کیسوں میں پھنسائے گئے محروسین کو قانونی مدد کرنے کے علاوہ تعلیمی، سماجی، سیاسی اور رفا ہی کاموں کو انجام دینے کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟
گلزار صاحب کے انتقال سے پیدا شدہ خلاء کو بھرنے میں کافی وقت لگے گا لیکن ان کے عمل اور کام کرنے کے طریقہ کو نہ صرف یہ کہ اپنایا گیا ہے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقدمات کی پیروی کا سلسلہ جاری و ساری رکھا گیا ہے۔ جمعیۃ علماء کے قانونی مشیر ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے کاندھوں پر بھی کافی ذمہ داریاں آگئی ہیں جسے وہ خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں چنانچہ جمعیۃ کے وکلاء کی ٹیم کی پیروی کے سبب جہاں درجنوں کیسوں میں محروسین کو قانونی مدد مل رہی ہے وہیں ایک سال میں ملک دشمنی اور دہشت گردی سے متعلق کیسوں میں ۳۴، فسادات میں مجرمانہ سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۲۲؍ جبکہ مختلف دیگر کیسوں سے ۸؍ ملزمین کو رہا ئی دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جہاں تک موجود نا مساعد حالات میں جمعیۃ کے عزائم کی بات ہے سماجی، فلاحی اور رفاہی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ اسے انجام دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
تعلیمی اور مالی اعتبار سے مسلمانوں کومستحکم کرنے کے لئے کیا قدم اٹھایا جاسکتا ہے اوراس سلسلہ میں جمعیۃ کی اولین ترجیحات کیا ہیں اور ان کے لئے کس طرح کی کوشش کی جارہی ہے؟
موجودہ حالات ہی میں نہیں بلکہ ہر دور میں کوئی قوم علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی مگر افسوس کہ مسلمان اس میدان میں پچھڑتا جارہا ہے۔ جمعیۃ نےہمیشہ ملت کے ان افراد کی توجہ، جنہیں اللہ نے نوازا ہے، اس طرف مبذول کرائی ہے کہ جس طرح دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اسی طرح مسلمان اپنے عصری تعلیمی ادارے قائم کریں یعنی مسلمان خو داپنا اسکول، کالج اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے یونیورسٹیاں قائم کریں۔یہی وجہ ہےکہ جمعیۃ کی اولین ترجیحات میں عصری اور دینی تعلیم کو ہمیشہ اہمیت اور فوقیت دی گئی اوردینی تعلیم کے علاوہ اسکولی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو وظائف دینے کا اہتمام اور انتظام کیا گیا۔ یہ سلسلہ بحسن وخوبی جاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں موجودہ حالات میں مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی میدان میں مستحکم ہونے کی از حد ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے عصری تعلیم کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے ۔
عصری تعلیم کے حصول کیلئے جمعیۃ نےاسکول یا کالج قائم کرنے کی جو پیش رفت کی وہ کس مرحلے میں ہے ؟
گزشتہ چند برسوں سے مسلمانوں کے تئیں ملک میںحکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے رویہ میںمنفی تبدیلی کو محسوس کیا جارہا ہے جو انصاف پسند معاشرے کو بے چین کررہا ہے ۔ایک سماج سے وابستہ افراد کے تعلق سے عدلیہ کے یکطرفہ فیصلے سے بے چینی کے ساتھ ساتھ انصاف کے مندروں کا احترام بھی کمزور پڑتا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت یا فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس زیادتی کے شکار افراد کے مقدمات کی پیروی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔یہی نہیںعبادت گاہوںکے علاوہ اب تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ ان حالات نے ہمیں عملی قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے ۔ شولا پور میں ۶؍ ایکڑ زمین خریدی گئی ہے جہاں جونیئر کالج کا قیام عمل میں آئے گا اور اس کیلئے سروے کر لیا گیا ہے ۔ شولا پور کے مندروب علاقے میں مسلم بچیوں کیلئے جونیئر کالج بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہاں سول انجینئر کو کالج کا پلان بنانے کی ذمہ داری بھی سونپی دی گئی ہے۔ اسی طرح مزیدعصری تعلیمی ادارے قائم کرنے کیلئے سروے کا سلسلہ جاری ہے۔ نالا سوپارہ میں بھی ایک عصری درسگاہ کیلئے زمین خریدی گئی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کھڑی کی گئی نفرت کی دیوار کو گرانے اور مسلمانوں کو اس ملک میں آگے بڑھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟
مسلمانوں پر اس طرح کے حالات یا اس سے بھی زیادہ سنگین حالات دنیا میں ہر زمانے میں رہے ہیں اور رہیں گے۔ ضروری یہ بھی ہے کہ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارا تعلق اپنے پرور دگار سے ٹوٹ یا کمزور تو نہیں پڑ گیا ہے۔ ہمیں اس رشتہ کو پہلے مضبوط کرنا ہوگا۔ دوسری بات ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور دستور نے ہمیں قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے جو وسائل اور ذرائع مہیا کئے ہیں اس کا صحیح اور بروقت استعمال کریں۔ جذباتی نعروں یا جذبات میں بہہ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے اہل خانہ اور قوم دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ نفرت کی دیوار محبت سے، اپنے حسن سلوک سے اور اپنے حسن عمل سے گرائی جاسکتی ہے ۔