ہندوستانی صحافی رعنا ایوب کو ہندوتوا گروپوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں، اور انہیں آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ’’ہندوتوانائٹ‘‘ ایکس سے رعنا ایوب کافون نمبر لیک کیا گیا اور انہیں رات بھر فحش پیغامات بھیجے گئے۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 10:34 PM IST | New Delhi
ہندوستانی صحافی رعنا ایوب کو ہندوتوا گروپوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں، اور انہیں آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ’’ہندوتوانائٹ‘‘ ایکس سے رعنا ایوب کافون نمبر لیک کیا گیا اور انہیں رات بھر فحش پیغامات بھیجے گئے۔
دائیں بازو کے ایکس ہینڈلز سے ہندوستانی صحافی رعنا ایوب کا فون نمبر لیک کیا گیا ہے اور انہیں ایک بار پھر ہراساں کیا جارہا ہے۔ خیال رہے رعنا کو طویل عرصے سے ہندوتوا گروپوں کی جانب سے آن لائن ہراساں کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ فون نمبر لیک ہوجانے کے بعد سے انہیں مسلسل ویڈیو کالز اور فحش پیغامات آرہے ہیں۔ مہاراشٹر سائبر سیکورٹی اینڈ انویسٹی گیشن، نیشنل کمیشن فار ویمن اور ایکس سپورٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے ایوارڈ یافتہ صحافی نے ایکس پر بتایا کہ ’’یہ میرے اور میرے خاندان کیلئے ایک تکلیف دہ رات رہی ہے۔‘‘
I have lived a nightmare. At around 1 am tonight, this right wing handle posted my number on twitter, asked his followers to text me. My phone did not stop ringing through the night. Video calls, obscene Whats app msgs. Hello @MumbaiPolice @NCWIndia, this was targeted harassment pic.twitter.com/3LOc1BaO1Z
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) November 8, 2024
ایکس ہینڈل ’’ہندوتوا نائٹ‘‘، جو مبینہ طور پر چندن شرما نامی شخص کے ذریعہ چلایا جاتا ہے، نے ان کا نمبر پوسٹ کیا، اور فالوورز سے انہیں پریشان کرنے کیلئے کہا۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ایشیا کی سربراہ بیہ لی یائی نے کہا کہ رعنا ایوب کے کام کو سراہتے ہوئے ان کے خلاف مسلسل دھمکیاں بند ہونی چاہئیں۔ دریں اثناء، صحافیوں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ممبئی پولیس سے مجرموں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: آسٹریلیا: ۱۶؍ سال سے کم عمر کے بچے سوشل میڈیا استعمال نہیں کرسکیں گے
واضح رہے کہ رعنا ایوب، جو مودی حکومت کی ناقد ہیں، کو اس سے قبل بھی منظم ڈاکسنگ، آن لائن بدسلوکی، اور دائیں بازو کے حامیوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیوں سمیت پرتشدد دھمکیوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔خیال رہے کہ آن لائن ذاتی معلومات کی اشاعت کو Doxing (ڈاکسنگ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ — صحافیوں، خاص طور پر خواتین صحافی کو ڈجیٹل طور پر ہراساں کرنے کی ایک عام شکل ہے۔