کیرالا ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ، دوٹوک انداز میں کہا کہ ہندوستان میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 10:57 AM IST | Agency | Kochi
کیرالا ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ، دوٹوک انداز میں کہا کہ ہندوستان میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں فرقہ واریت اور مسلم مخالف ذہنیت کے حامل افراد کھل کھیلنے میں مصروف ہیں، کیرالا ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ کسی کو عبادتگاہ بنانے کی اجازت دینے سے صرف اس لئے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دوسرے گروپ کو ا س پر اعتراض ہے۔ عدالت نے زور دےکر کہا ہے کہ ہندوستان جمہوری ملک ہے جہاں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔
کیرالا ہائی کورٹ نے دور رس نتائج کاحامل یہ فیصلہ جمعہ کو کوزی کوڈ سے تعلق رکھنےوالے کے ٹی مجیب کی پٹیشن پر سنایا ہے۔مجیب نے کلکٹر کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس میں انہیں اپنی بلڈنگ میں مسلمانوں کے لئے عبادت گاہ قائم کرنے کی درخواست پر نو آبجکشن سرٹیفکیٹ ’این او سی ‘‘ ( اعتراض نہ ہونے کا تصدیق نامہ) دینے سے انکار کیاگیا اور ہدایت دی گئی کہ وہ مذکورہ عبادتگاہ کو فوری طور پر بند کردیں۔
یہ بھی پڑھئے:کیا `’’ووٹوں کا دھرم یدھ‘‘ والا بیان ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے: ادھو ٹھاکرے
یاد رہے کہ اس پٹیشن پر کے ٹی مجیب کو ۲۰۱۶ء میں ہی ہائی کورٹ نے یہ عبوری حکم سنا کر بڑی راحت دی تھی کہ پٹیشن پر حتمی فیصلہ تک وہ چند شرائط کے ساتھ مذکورہ عمارت کو عبادتگاہ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے ضلع کلکٹر کو ہدایت دی تھی کہ وہ پولیس اور محکمہ محصولات سے ملنے والی رپورٹ کی بنیاد پر این او سی سرٹیفکیٹ سے متعلق فیصلہ کریں۔
کوزی کوڈ پولیس کے سربراہ نے ضلع کلکٹر کوجو رپورٹ دی اس میں دوسرے مذہب کے ماننے والوںاور حتیٰ کہ کچھ مسلمانوں کے اعتراض کا حوالہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ مذکورہ عمارت کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے پر علاقے میں نقض امن کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پولیس کی اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر ضلع کلکٹر نے این او سی دینے سے انکار کردیا۔ا س کے خلاف داخل کی گئی کے ٹی مجیب کی پٹیشن پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ نےزور دیا کہ اس طرح کے رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے ریاست کو مذہبی آزادی کے تحفظ اور سیکولر اقتدار کی برقراری کے درمیان ایک نازک توازن قائم رکھنا چاہئے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ دوسرے عقیدے کے ماننے والے چند لوگوں کے اعتراض کو کسی کے ان حقوق کو چھیننے کا جواز نہیں بنایا جاسکتا جن کی ضمانت آئین نے آرٹیکل ۲۵؍ اور ۲۶؍ کے تحت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے عرضی گزار کی درخواست پر کلکٹر کو نظر ثانی اور ۳؍ مہینے میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے۔واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں مساجد کے خلاف بھگوا عناصر کی شر انگیزی میں مسلسل اضافہ درج کیا جارہا ہے۔