مہاراشٹر کی ۵؍ سیٹوں پر بی جےپی کو نقصان کا اندیشہ، بہار اور یوپی میں بھی کم پولنگ کو زعفرانی پارٹی کیلئے خطرہ کی گھنٹی قراردیاگیا۔
EPAPER
Updated: April 21, 2024, 12:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai / Patna
مہاراشٹر کی ۵؍ سیٹوں پر بی جےپی کو نقصان کا اندیشہ، بہار اور یوپی میں بھی کم پولنگ کو زعفرانی پارٹی کیلئے خطرہ کی گھنٹی قراردیاگیا۔
جمعہ کو لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ میں رائے دہندگان میں جوش وخروش کے فقدان اور ووٹنگ فیصد میں آنے والی کمی کو اکثر مقامات پر بی جے پی کے نقصان کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ مہاراشٹر میں اس کی وجہ سے کانگریس اور بی جے پی میں ٹینشن بڑھ گیا ہے۔ اعدادوشمار پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق کم ووٹنگ کی وجہ سے کانگریس اور بی جےپی کے درمیان مقابلہ سخت ہوگیاہے۔
مہاراشٹرکی ۵؍ سیٹوں پر کم پولنگ کے معنی
مہاراشٹر کےجن ۵؍ پارلیمانی حلقوں میں جمعہ کو ووٹ ڈالے گئے وہاں پولنگ کا مجموعی فیصد ۵۷ء۸۲؍ رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نکسل متاثرہ گڑھ چرولی سیٹ پر سب سے زیادہ ۶۶ء۳؍ فیصد پولنگ ہوئی جو ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں ۶ء۰۳؍ فیصد کم ہے۔ ناگپور جہاں سے گڈکری کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، ۲۰۱۹ء کے ۵۷ء۸؍ فیصد کے مقابلے امسال ۵۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی یہی رجحان بقیہ ۴؍ سیٹوں پر رہا۔ رام ٹیک میں ۲۰۱۹ء کی ۶۲ء۳۰؍ فیصد پولنگ کے مقابلے میں ۵۵ء۴۶؍فیصد پولنگ ہوئی جبکہ بھنڈارہ میں ۶۸ء۸؍ کے مقابلے ۶۱ء۳۷؍فیصد اور چندر پور میں ۶۷ء۷؍ کے مقابلے ۵۷ء۹؍ فیصد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ سیاسی تجزیہ نگار کم ووٹنگ کو حکمراں محاذ کے تعلق سے عوام کی سرد مہری سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کے مطابق ’’اس الیکشن میں بھی کم پولنگ کسی لہر کے نہ ہونے کا واضح اشارہ ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں بی جے پی کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ووٹروں کے جوش وخروش کا فائدہ بی جےپی کو ہوتا ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: آئی ایم ایف بورڈ کے اب تک کے ایجنڈے میں پاکستان شامل نہیں
بہار میں زعفرانی پارٹی کیلئے خطرہ کی گھنٹی
جمعہ کو ۲۱؍ ریاستوں میں ۱۰۲؍پارلیمانی سیٹوں پر ۶۸ء۲۹؍ فیصد پولنگ ہوئی۔ سب سے زیادہ (۸۳ء۸۸؍فیصد) پولنگ لکش دیپ میں اور سب سے کم (۴۸ء۸۸؍فیصد) بہار میں ہوئی۔ بہار میں پولنگ فیصد میں کمی کو سیاسی تجزیہ نگار بی جےپی کیلئے خطرہ کی گھنٹی تصور کررہے ہیں۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں بی جےپی اتحاد نے بہار کی ۴۰؍ میں سے ۳۹؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ۲۰۲۴ء میں اپنا اقتدار بچانے کیلئے اسے مذکورہ سیٹوں پر قبضہ برقرار رکھنے کا چیلنج ہے۔
پارٹی کارکنوں میں بھی جوش وخروش کا فقدان
حکومت مخالف لہر سے بچنے کیلئے پارٹی نے زیادہ تر امیدوار بھی بدل دیئے تھے پھر بھی عوام میں جوش وخروش نہ پیدا ہونا زعفرانی پارٹی کیلئے فکرمندی کا باعث ہے۔ بہار کے جموئی، نوادہ، گیا اور اورنگ آباد پارلیمانی حلقوں میں جمعہ کو ووٹ ڈالے گئے۔ ان چاروں اضلاع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امسال خود بی جےپی کے کارکنوں میں بھی وہ جوش وخروش نظر نہیں آیا جو ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں تھا۔ یہی حال بی جےپی کا کلیدی ووٹ بینک سمجھے جانےوالی اعلیٰ ذاتوں کے ووٹروں کا بھی تھا۔ دوسری طرف دعویٰ کیا جارہاہے کہ اقلیتوں کے علاوہ یادو اور دلت بڑی تعداد میں ووٹ دینے پولنگ بوتھ پہنچے۔ ان قیاس آرائیوں کے برخلاف مودی اور امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ پہلے مرحلے میں بی جےپی کو سبقت حاصل ہے۔
امروہہ میں راہل اور اکھلیش کی ریلی کا موازنہ مودی کی ریلی سے، مغربی یوپی میں بدلاؤ کی لہرہونے کا دعویٰ
امروہہ میں جمعہ کو وزیراعظم مودی کی ریلی کے بعد سنیچر کو منعقد ہونےوالی راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی ریلی کےبعد یہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اس دعوے کو تقویت ملی کہ مغربی یوپی میں بدلاؤ کی لہر چل رہی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق راہل گاندھی اور اکھلیش کی ریلی میں امڈنے والی بھیڑ از خود آئی تھی جبکہ وزیراعظم کی ریلی کو سرکاری مشنری کی تائید حاصل تھی۔
جمعہ کی ریلی میں وزیراعظم نے مقامی افراد کو رجھانے کیلئے جہاں بھگوان کرشن اور کرکٹر محمد سمیع کا سہارا لیا وہیں راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے مقامی مسائل کو اٹھایا اوران پر گفتگو کی۔ سماجوادی سربراہ نے پر امید لہجے میں کہا کہ ’’مغربی یوپی سے ابھرنے والی تبدیلی کی ہوا پورے ملک میں چلے گی، جو ایک ایسی تبدیلی کا آغاز کرے گی جو نہ صرف اتر پردیش کو نئی شکل دے گی بلکہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر دے گی۔ ‘‘اس موقع پر راہل گاندھی نے مہنگائی اور بے روزگاری کےمسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وزیراعظم مودی عوام کی قیمت پر مٹھی بھر سرمایہ داروں کی حمایت کررہے ہیں۔ دونوں لیڈروں نے بطور خاص کسانوں کے مسائل پر گفتگو کی اور سوال کیا کہ کیا مودی نے ان کی آمدنی دگنی کرنے کا وعدہ پورا کیا؟