• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتح پور میں سادھوی نرنجن جیوتی کی جیت آسان نہیں، سماجوادی امیدوار نریش اُتم پٹیل مضبوط دعویدار

Updated: May 21, 2024, 11:30 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں فتح پور لوک سبھا کےتحت آنے والے اسمبلی حلقوں میں سماجوادی پارٹی کو مجموعی طور پر ۴۰ء۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بی جے پی کو ۳۳ء۹؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔

Niranjan Jyoti. Photo: INN
نرنجن جیوتی۔ تصویر : آئی این این

لوک سبھا انتخابات کے پانچویں مرحلے میں اترپردیش کی جن ۱۴؍ سیٹوں پر پولنگ تھی، ان میں سے ایک فتح پور لوک سبھا کی سیٹ بھی تھی۔ ۲۰؍ مئی کو وہاں پولنگ ہوگئی لیکن یہ بحث بہرحال جاری ہے کہ کیا بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کی ہیٹ ٹرک ہوسکے گی؟ ماہرین کا خیال تھا کہ اس مرتبہ سماجوادی پارٹی نے اپنی حکمت عملی سے نرنجن جیوتی کے ساتھ ہی بی جے پی اعلیٰ کمان کی نیند بھی حرام کردی ہے۔ مایاوتی نے بھی حالانکہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر ڈاکٹرمنیش سچان کو میدان میں اُتارا ہے لیکن حلقے میں اصل مقابلہ سادھوی نرنجن جیوتی اور نریش اُتم پٹیل ہی کے درمیان ہے۔ سماجوادی پارٹی نے پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے آخری دن اپنے ریاستی صدر نریش اُتم پٹیل کے نام کااعلان کرکے بی جے پی کیلئے پریشانیاں کھڑی کردیں۔ 
 ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں فتح پور میں بی جے پی کی امیدوار سادھوی نرنجن جیوتی کو ایک لاکھ ۹۸؍ ہزار اور ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں ایک لاکھ ۸۷؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی ملی تھی لیکن اس مرتبہ ان کیلئے راہ آسان نہیں ہے۔ اس کی ایک دو نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ۲۰۱۹ء اور آج کے سیاسی حالات میں کافی فرق ہے۔ اُس وقت بالا کوٹ سرجیکل اسٹرائیک کی وجہ سے ملک کا سیاسی ماحول یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ ملک کے ایک بڑے طبقے میں یہ بات تھی کہ مودی کو ایک اور موقع ملنا چاہئے۔ یہ دونوں باتیں آج نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: باندرہ اور جوہوعلاقوں کے پولنگ بوتھوں پرفلم اسٹاروں نے حق رائے دہی کااستعمال کیا

تیسری وجہ یہ ہے کہ نرنجن جیوتی کے تعلق سے آج ’اینٹی اِن کم بینسی‘ پائی جارہی ہے۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ آج ملک کے سیکولر ووٹوں کے درمیان تقسیم کا خدشہ نہیں کے برابر ہے۔ پانچویں بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات کے دوران لوک سبھاکیلئے رائے دہندگان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ سماجوادی اور بی ایس پی اتحاد کے باوجود ووٹرس کے درمیان ایک عام تاثر یہی تھا کہ انہیں ووٹ دے کر کیا ہوگا؟ مرکز میں ان کی حکومت تو بننے سے رہی ... لیکن اس مرتبہ یہ تاثر نہیں ہے۔ انڈیا اتحاد کے تشکیل پاجانے اور سماجوادی کانگریس کے درمیان اتحاد کی وجہ سے رائے دہندگان میں اس بات کی امید پیدا ہوچلی ہے کہ خاطر خواہ سیٹیں ملنے کے بعد مرکزی میں ان کی حکومت بن سکتی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی جیت کے امکانات کی چھٹی وجہ گزشتہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں سماجوادی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں فتح پور لوک سبھا کے تحت آنے والے ۶؍ اسمبلی حلقوں میں سماجوادی پارٹی کو مجموعی طور پر ۴۰ء۲؍ فیصد اور کانگریس کو ۱ء۹؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بی جے پی کو ۳۳ء۹؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے حصے میں ۳؍ اورسماجوادی پارٹی کے حصے میں ۲؍ سیٹیں آئی تھیں جبکہ ایک سیٹ پر بی جے پی کی اتحادی جماعت اپنا دل (سونے لال پٹیل) کاامیدوار کامیاب ہوا تھا۔ 
 ان باتوں کے علاوہ نریش پٹیل کی جیت کیلئےجو سب سے بڑی وجہ بتائی جارہی ہے، وہ حلقے میں ذات پات کا حساب کتاب ہے۔ فتح پور لوک سبھا حلقے میں کرمی برادری کی تعداد خاطر خواہ ہے...اور نریش اُتم پٹیل کا تعلق اسی برادری سے ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی برادری کا ووٹ اپنی جانب آسانی سے کرسکیں گے جو اس سے قبل تک بی جےپی کا روایتی ووٹ مانا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ۱۳؍ فیصدمسلم اور کم و بیش اتنی ہی تعداد یادو برادری کی بھی ہے جن کی مکمل حمایت سماجوادی پارٹی کو مل سکتی ہے۔ 
 فتح پور میں سادھوی کی کامیابی کے تئیں بی جے پی کی پریشانی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کو نہ صرف وہاں ریلی کرنی پڑی بلکہ ایک سے زائد بار فتح پور کیلئے انہیں اپیل بھی کرنی پڑی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK