یہاں کے عوام مرکز میں مودی حکومت چاہتے تھے لیکن امیدوار سے خوش نہیں تھے اسلئے درست اندازہ لگانا مشکل ہےکہ لہر کس کے حق میں چلی ہوگی!
EPAPER
Updated: June 03, 2024, 12:05 PM IST | Agency | Mandi
یہاں کے عوام مرکز میں مودی حکومت چاہتے تھے لیکن امیدوار سے خوش نہیں تھے اسلئے درست اندازہ لگانا مشکل ہےکہ لہر کس کے حق میں چلی ہوگی!
: ملک بھر میں `چھوٹی کاشی کے نام سے مشہور ہماچل پردیش کی `منڈی پارلیمانی سیٹ پر لڑائی ایسے امیدواروں کے درمیان ہوئی جنہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے اردو کے الفاظ کا انتخاب کیا۔ ایک طرف جہاں بی جےپی امیدوار اوراداکارہ کنگنا رناوت نے کانگریس امیدوار اور ریاستی وزیر وکرمادتیہ سنگھ کو ’ `شہزادہ‘ کہہ کر مخاطب کیا، وہیں سنگھ بھی کنگنا کو `’محترمہ‘ کہہ کر مخاطب کر نے لگے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بار کا انتخاب شہزادے اور محترمہ کے درمیان زبانی جنگ میں ہی الجھا رہا۔ مفاد عامہ کے مسائل پر بات کم اور ذاتی الزامات اور جوابی الزامات زیادہ تھے۔ وکرمادتیہ سنگھ نے اپنا وژن عوام کے درمیان رکھا تو کنگنا رناوت کو `مودی کے سہارے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی امید ہے۔
کنگنا رناوت کے آبائی علاقہ سرکاگھاٹ میں ۶۷ء۵۸؍فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہاں کے ووٹروں میں ووٹ ڈالنے کیلئےجوش و جذبہ توقع کے مطابق نہیں تھا۔ کنگنا سرکاگھاٹ کے لوگوں سے اپیل کرتی رہیں کہ یہاں سے زیادہ سے زیادہ ووٹنگ ہونی چاہئے۔ سرکاگھاٹ کے لوگوں نے زیادہ ووٹنگ کی اپیل کوتو مسترد کر دیا، لیکن جیت دلائی ہےیا نہیں یہ ۴؍ جون کو ہی پتہ چلے گا۔
یہ بھی پڑھئے: سکم میں ایس کے ایم، اروناچل میں بی جےپی کی یکطرفہ فتح
دوسری طرف وکرما دتیہ سنگھ کے آبائی حلقہ رام پور میں ۷۴ء۳؍ فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام نے راجہ کے لیے جوش و خروش دکھایا ہے حالانکہ وکرمادتیہ سنگھ۸۰؍فیصد سے زیادہ ووٹنگ کی توقع کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ بی جے پی لیڈر جے رام ٹھاکر کا سراج اس بار بھی ووٹنگ میں سب سے آگے رہا۔ سراج میں ۷۹ء۲۲؍ فیصد ووٹنگ ہوئی، یہ منڈی پارلیمانی حلقہ میں سب سے زیادہ ہے۔
اگر پیش گوئی کی بات کی جائے تو منڈی پارلیمانی سیٹ پر `شہزادے اور `محترمہ کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شہزادہ جیت رہا ہے یا محترمہ۔ منڈی پارلیمانی حلقہ کے عوام نے خاموشی سے اپنا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہاں لوگ مرکز میں مودی حکومت چاہتے تھے، لیکن امیدوار سے خوش نہیں تھے۔
اب ایسی صورت حال میں درست اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ ووٹروں نے امیدوار کے تئیں ناراضگی ظاہر کی ہے یا وزیر اعظم نریندر مودی کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔