• Sat, 09 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وقف املاک پر نظر، قانون بدلنے کی تیاری

Updated: August 05, 2024, 10:11 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے حکومت اسی ہفتے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کریگی، مسلمانوں میں  بے چینی۔

The central government will introduce the Waqf Amendment Bill in Parliament this week.
مرکزی حکومت اسی ہفتے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرے گی۔ تصویر : آئی این این

ملک کی اقلیتوں کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے اب وقف ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وقف املاک کے معاملے میں وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم مودی کی قیادت میں  مرکزی کابینہ نے وقف ایکٹ میں۴۰؍ تبدیلیوں کو منظوری دیدی ہے جسے اسی ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائےگا۔ اقلیتی تنظیموں اور نمائندوں  نے اسے وقف املاک کو ہتھیانے کی  سازش قرار دیا ہے اور  پوری شدت سے مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ 
ذرائع کے مطابق جمعہ کو کابینہ کی میٹنگ میں وقف قوانین میں ۴۰؍ ترامیم کو منظوری دی گئی ہے، جس سے نہ صرف وقف بورڈ  بےاختیار ہوجائیں گے، بلکہ ملک بھر میں وقف املاک کو ہتھیانے کا راستہ بھی صاف ہوجائے گا۔ یہ کہا جارہاہے کہ اس وقت ملک میں وقف بورڈس کے پاس مطلق اختیارات ہیں اور کوئی زمین وقف ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وقف بورڈ کرتا تھا مگر اب جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کے مطابق ’’املاک پر وقف بورڈ کے تمام دعوؤں کو لازمی ویری فکشین (تصدیق) سے گزرنا ہوگا۔‘‘ وقف قوانین وقف بورڈ کو اپنی املاک پر مناسب کنٹرول، موثر انتظام اوراس کے تحفظ کیلئے اختیارات فراہم کرتے ہیں۔ ان اختیارا ت کو چھین لینے سے نہ صرف بورڈ کیلئے اپنی املاک پر دعویٰ کرنا مشکل ہو جائے گا بلکہ پہلے سے مال غنیمت سمجھ کر وقف املاک پرجن لوگوں کا قبضہ کررکھا ہے، وہ بھی پوری طرح سے کسی پابندی سے آزاد ہوجائیں  گے۔ وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں یوپی اے سرکار نے ۲۰۱۳ء میں ترمیم کرکے اسے مزید موثر کیاتھا تاہم الزام ہے کہ اب مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت وقف بورڈ کو بے اثر کردینے کی کوشش کررہی ہے۔ مجوزہ تبدیلیوں میں  وقف بورڈ میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے اس کی ساخت اور کام کاج کے طریقے کو  تبدیل کرنے کیلئے ایکٹ کی دفعہ ۹؍ اور دفعہ ۱۴؍ میں تبدیلی کی تجویز کو بھی کابینہ نے منظوری دی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:کانگریس کے دلت لیڈر راجیش عرف راجو سولنکی کے خلاف ٹیرر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

حکومت کی جانب سے اس معاملے میں خاموشی ہے مگر بی جےپی لیڈرآر پاٹل کے ایکس  پوسٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حکومت وقف ایکٹ میں تبدیلی کرنے والی ہے۔ انہوں نے ایکس پر ایک خط شیئر کیا ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ مودی حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کیلئے بل لارہی ہے اوراس کے ذریعہ بورڈ کے اختیارات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ آرپاٹل نےوقف ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے  دعویٰ کیا ہے اس بل میں سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کی ساخت کو تبدیل کرنے کیلئے وقف ایکٹ کی دفعہ ۱۹؍ اوردفعہ ۱۴؍ میں ترمیم کی تجویز ہے۔
وقف ایکٹ میں تبدیلی کی بازگشت پر مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔  آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وقف ایکٹ میں تبدیلی   سماج میں انتشار کا باعث بنے گی۔  واضح رہے کہ ملک بھر میں وقف املاک پروی سے بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کا قبضہ ہے۔ اگر وقف بورڈ کے اختیارات ختم کردیئے جاتے ہیں توان املاک سےقبضہ ہٹانے کیلئے عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے۔ ملک میں  دائیں  بازو کی طاقتوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہاہے کہ وقف ایکٹ کومنسوخ کردیا جائے۔ اس کیلئے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمس پر مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ دائیں بازو کی جانب سے وقف بورڈ کے تعلق سے گمراہ کن، فضول اور بکواس دعوے بھی کئے جاتے رہے ہیں۔

وقف ایکٹ میں تبدیلی ناقابل قبول: مسلم پرسنل لاء بورڈ
وقف ایکٹ میں تبدیلی کی تیاریوں کی خبر عام ہوتے ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اتوار کو ایک پریس ریلیز جاری کرکے متنبہ کیا ہے کہ’’  وقف ایکٹ میں ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت  اور نوعیت بدل جائے یا اس کو ہڑپ کرلینا حکومت یا کسی فرد کیلئے آسان ہوجائے، ہرگز قابل قبول نہیں کی جائےگی۔ اسی طرح  وقف بورڈس کے اختیارات کو کم یا محدود کرنے کو بھی قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کی جانب سے جاری کئے گئے  بیان میں کہا  گیا   ہےکہ’’ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ میں تقریباً۴۰؍ ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپ لینا آسان ہوجائے۔اس نوعیت کا بل اگلے ہفتہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں، جنہیں مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔ قاسم رسول الیاس نے نشاندہی کی کہ  وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستورہند اور شریعت اپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ء بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائید ا دوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔قاسم رسول الیاس نے کہا کہ اب تک حکومت نے مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات کئے ہیں اس میں ان سے کچھ چھینا ہی ہے، دیا کچھ نہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں  مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو بندکئے جانے،اقلیتی اسکالرشپ کی منسوخی اور تین طلاق سے متعلق قانون  کا حوالہ دیا ۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ وقف جائیدادوں  کے بعد اندیشہ ہے کہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوں کے اوقافی جائیدادوں اور پھر ہندو ؤں کے مٹھوں اور دیگر مذہبی جائیدادوں پر بھی آسکتا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں اور دیگر اپوزیشن سیاسی پارٹیوں سے پرزور اپیل کی ہےکہ وہ ہر ایسی تجویز  اور ترمیم کو  پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK