مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ سے مندر ہٹانےکے خلاف وکلاء تنظیم نے احتجاج کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سناتن مذہب کے ماننے والوں کی توہین ہے، اور یہ گھر چیف جسٹس کی `ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2024, 2:40 PM IST | Inquilab News Network | Bhopal
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ سے مندر ہٹانےکے خلاف وکلاء تنظیم نے احتجاج کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سناتن مذہب کے ماننے والوں کی توہین ہے، اور یہ گھر چیف جسٹس کی `ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
بار اور بنچ نے جمعرات کو اطلاع دی کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سریش کمار کیت کے مبینہ طور پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کے احاطے سے ہنومان مندر کو ہٹانے پراعتراض کیا ہے۔ وکلاء کی تنظیم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اپنا اعتراض جتایا،اس اقدام کو انہوں نے سناتن مذہب کے پیروکاروں کی توہین قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کئی مسلمان چیف جسٹس بھی گزرے، لیکن انہوں نے بھی اس مندر پر اعتراض نہیں جتایا۔ سرکاری رہائش گاہ سرکاری جائیداد ہےانہوں نے یہ بھی کہا کہ کیونکہ چیف جسٹس اور سناتن دھرم میں یقین رکھنے والے زیادہ تر ملازمین بنگلے میں رہ رہے ہیں،لہٰذا مندر کی وقتاً فوقتاً دیکھ بھال سرکاری رقم سے کی جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: یوپی: الہ آباد ہائی کورٹ نے مغل دور کے حمام کو انہدام سے عبوری تحفظ فراہم کیا
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دھنیا کمار جین نے بار اور بنچ کو بتایا کہ کیت کا بدھ مت کاپیروکار ہونا اس کارروائی کی وجہ ہو سکتی ہے۔ہمیں ان کے مذہب سے کوئی دقت نہیں ہے۔لیکن اس طرح مندر کو ہٹانا درست نہیں ہے۔ بار ایسوسی ایشن کے خط میں اس اقدام کے قانونی کیس کے مضمرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جس میں ایک وکیل نے مدھیہ پردیش کے تھانوں سے تمام مندروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کیت کو کیس سے الگ ہونے کی ہدایات جاری کی جائیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کالجیم نے ستمبر میں مدھیہ پردیش میں چیف جسٹس کے عہدے کیلئے دہلی ہائی کورٹ کے سینئر جج سریش کمار کیت کی سفارش کی تھی۔