مہاراشٹر میں بعض اسمبلی حلقے ایسے تھے جہاں ٹکر کا مقابلہ تھا۔ جانئے ایسے ہی چند حلقوں کے بارے میں۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مہاراشٹر میں بعض اسمبلی حلقے ایسے تھے جہاں ٹکر کا مقابلہ تھا۔ جانئے ایسے ہی چند حلقوں کے بارے میں۔
ابو عاصم کو ہرانے کی کوشش ناکام، ۱۲؍ ہزار ووٹوں سے جیت گئے
ایم آئی ایم کے عتیق نے زبردست مقابلہ کیا۔ سابق وزیر نواب ملک کی شرمناک ہار، ضمانت ضبط
مضافات میں واقع مانخورد۔ شیواجی نگر حلقہ انتخاب (۱۷۱) میں ابو عاصم اعظمی نے ۵۴؍ ہزار ۷۸۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوگئے۔
اس حلقہ انتخاب میں کُل ۲۲؍ امیدوار تھے لیکن صرف ۲؍ امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ ان امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد نے ثابت کردیا ہے کہ یہاں کی عوام نے انتہائی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جس کے نتیجہ میں مہاراشٹر کے قد آور سیاسی لیڈروں میں شمار ہونے والے نواب ملک کو اپنی زندگی کی سب سے بُری ہار سے دوچار ہونا پڑا۔ اس الیکشن میں نواب ملک کو نہ صرف چوتھی پوزیشن ملی بلکہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔ انہیں کُل ۱۵؍ ہزار ۵۰۱؍ ووٹ ملے اور وہ ابو اعصم اعظمی سے ۳۹؍ ہزار ۲۷۹؍ ووٹوں سے پیچھے رہے۔ یہاں تیسری پوزیشن پر شیوسینا (شندے) کے سریش (بُلیٹ) پاٹل تھے۔
تاہم ابو عاصم اعظمی کو سب سے زیادہ سخت مقابلے کا سامنا پہلی مرتبہ سیاسی میدان میں قسمت آزمانے والے عتیق احمد خان سر سے کرنا پڑا جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار تھے۔
ان کی خصوصیت یہ رہی کہ یہ گوونڈی کے ہی رہنے والے ہیں اور سیاسی میدان میں آنے سے پہلے ہی مقامی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشاں رہتے تھے اوریہاں کے مسائل کو حل کرنے کی غرض سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور انہیں مقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
عتیق سر کو کُل ۴۲؍ ہزار ۲۷؍ ووٹ ملے اور وہ کامیابی حاصل کرنے والے سماجی وادی پارٹی کے طاقتور امیدوار ابو عاصم اعظمی سے ۱۲؍ہزار ۷۵۳؍ ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔
سابق وزیر محمد عارف نسیم خان کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا
شیوسینا (شندے)کے امیدوار دلیپ بھاؤصاحب لانڈےکی ۲۰؍ ہزار ووٹوں سے فتح
چاندیولی حلقۂ انتخاب ۱۶۸؍ میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق ریاستی وزیر محمد عارف نسیم خان اورشیوسینا (شندے گروپ ) کے امیدوار دلیپ بھاؤ صاحب لانڈے عرف ماما کے درمیان مقابلہ تھا۔ اس حلقے میں مجموعی طور پر۱۱؍ امیدوار قسمت آزمائی کررہے تھے لیکن اصل مقابلہ کانگریس اور شیوسینا میں تھا۔ یہ امید کی جارہی تھی کہ محمد عارف نسیم خان اس دفعہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے اور وہ دلیپ لانڈے کوشکست دے دیں گے مگر صورتحال اس کے برعکس رہی اوران کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ دلیپ لانڈے کو جہاں ۱۲۴۶۴۱؍ ووٹ ملے اوروہ ۲۰۶۲۵؍ ووٹوں سے بازی مار لے گئے وہیں محمدعارف نسیم خان کو ۱۰۴۰۱۶؍ ووٹ ہی ملے اوروہ شکست کھاگئے۔
دونوں امیدوارو ں کی جانب سے اپنی اپنی کامیابی کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا تھا اوردھواں دھار تشہیری مہم چلائی گئی تھی۔ لوگوں میں بھی یہ بات موضوع بحث رہی کہ کانگریس کےسینئرلیڈر اس دفعہ اپنی شاندار کامیابی درج کرائیں گے اوراسی حساب سے تیاری کی گئی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ جس وقت ووٹوں کی گنتی جاری تھی اس وقت بھی ان ہی دونوں لیڈروں کے درمیان کمی بیشی کی پوزیشن رہی۔ راؤنڈ کے حساب سے الیکشن کمیشن کے عملہ کی جانب سے جب اعلان کیا جاتا تو کبھی محمدعارف نسیم خان آگے نظرآتے اورکبھی دلیپ لانڈے۔ یہ صورتحال کئی راؤ نڈتک جاری رہی مگر اخیر میں دلیپ لانڈے کا پلڑا بھاری ہونے لگا۔
یہاں بھی پولیس کی جانب سے حالات کے پیش نظرسخت حفاظتی بندوبست کیاگیا تھا اور اعلیٰ پولیس ا فسران بھی موجود رہے تاکہ گنتی ختم ہونے اور امیدوار کے کامیابی کے اعلان کے بعد حامیوں کے درمیان کسی قسم کی بدمزگی نہ پیدا ہونے پائے۔ محمدعارف نسیم خان کی شکست سے علاقے کے مسلمانوں کو بھی مایوسی ہوئی۔
کانٹے کی ٹکر میں اسلم شیخ نے بازی ماری، ونود شیلار ہار گئے
سابق وزیر ۱۴؍ راؤنڈ تک پیچھے رہے مگر مالونی کے ووٹوں کی گنتی کے ساتھ آگے بڑھے اور فتح حاصل کی
ملاڈ مغرب ۱۶۲؍حلقۂ انتخاب میں کانگریس کے امیدوار اور سابق ریاستی وزیر اسلم رمضان علی شیخ اوربی جے پی امیدوار ونود شیلار کے درمیان کانٹےکی ٹکر رہی۔ ابتدائی ۱۴؍ راؤنڈ میں ونود شیلار ۲۲؍ ہزار سے زائد ووٹو ں سے آگے تھے مگر ۱۵؍ویں راؤنڈ کے بعد ان کی لیڈ میں بتدریج کمی آنی شروع ہوئی۔ جب مالونی کے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ۱۸؍ ویں راؤنڈ میں محض ۱۲۰۰؍ ووٹوں کا فرق رہ گیا۔ اس کے بعد تو ونود شیلارتیزی سے پچھڑنے لگے اور۲۲؍ ویں راؤنڈ میں اسلم شیخ کی کامیابی کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:گوگل کے مصنوعی ذہانت چیٹ بوٹ جیمنی نے سچ یا جھوٹ سوال کے جواب میں کہا ’مرو‘
اسلم شیخ ۶۲۲۷؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نےاس سیٹ پرچوتھی مرتبہ اپنی جیت درج کرائی ہے۔ جس وقت یہ مقابلہ آرائی جاری تھی اور الیکشن کمیشن کے عملہ کی جانب سے ایک ایک راؤنڈ کی تفصیل بتائی جارہی تھی اس وقت کانٹے کی ٹکر کی وجہ سے میڈیا کےنمائندوں میں بھی گفت وشنید شروع ہوئی۔ اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں صحافی حضرات رائے زنی کررہے تھے۔ کوئی ونود شیلار کے کامیاب ہونے کا قیاس لگا رہا تھا تو بیشترصحافی مالونی حلقے کے ووٹنگ مراکز کی تفصیلات کے منتظر تھے۔ ان کی دلیل تھی کہ ہر مرتبہ تقریباً ایسا ہی پیٹرن نظر آتا ہے۔ ملاڈ، مڈھ، منوری اور ولنئی کالونی وغیرہ میں تو بی جے پی کا امیدوار آگے رہتا ہے مگرمالونی میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی ۲۰۲۴ء کے الیکشن میں بھی ہوا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اس دفعہ اسلم شیخ کی کامیابی کے فرق میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسلم شیخ کو ۹۸۲۰۲؍ووٹ ملے جبکہ ونود شیلار کو ۹۱۹۷۵؍ ووٹ حاصل ہوئے۔ جیت کے اعلان سے قبل ہی پولیس نے زبردست بندوبست کیا تاکہ افراتفری نہ مچے۔ اسی لئے ماروے روڈ کو ایک جانب سے پترے سے گھیر دیا گیاتھا۔
ادھو سینا کے جام سوتکر کی فتح، فیاض احمد تیسری پوزیشن پر رہے
مہاوکا س اگھاڑی کیلئے اقلیتوں کی یکطرفہ ووٹنگ، یامنی جادھو ۳۱؍ ہزار ووٹوں سے ہار گئیں
بائیکلہ حلقہ انتخاب (۱۸۴) اس اسمبلی الیکشن میں اُن علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں امیدواروں کے انتخاب کیلئے اقلیتوں کو انتہائی سوچ سمجھ کر حق رائے دہی استعمال کرنے کی ضرورت تھی اور انہوں نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹ بٹنے نہیں دیا جس کی وجہ سے مہاوکاس اگھاڑی سے شیوسینا (ادھو) کے امیدوار منوج پانڈو رنگ جام سوتکر ۸۰؍ ہزار ۱۳۳؍ ووٹوں سے کامیاب ہوگئے۔
ان کا مقابلہ ادھو شیوسینا کو چھوڑ کر شیوسینا (شندے) میں شمولیت اختیار کرنے والی اور اس علاقے کی موجودہ ایم ایل اے یامنی یشونت جادھو سے تھا۔ یامنی جادھو لگاتار ۲؍ مرتبہ اس حلقہ انتخاب سے ایم ایل اے رہنے کے بعد تیسری مرتبہ قسمت آزمارہی تھیں۔ انہیں کُل ۴۸؍ ہزار ۷۷۲؍ ووٹ ملے اورانہیں ۳۱؍ہزار ۳۶۱؍ ووٹوں کے فرق سے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
یہاں سہ رخی مقابلہ تھا کیونکہ اس علاقے کے سینئر اور تجربہ کار لیڈر فیاض احمد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار تھے۔ تاہم انہیں محض ۵؍ہزار ۵۳۱؍ ووٹ ہی ملے اور وہ کامیاب امیدوار منوج سوتکر سے ۷۴؍ ہزار ۶۰۲؍ ووٹوں سے پیچھے رہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل پارٹی کی مقامی لیڈر شپ سے ناراض ہوکر فیاض احمد نے اے آئی ایم آئی ایم سے علیٰحدگی اختیار کرلی تھی لیکن بعد میں آپسی مصالحت کے بعد نہ صرف انہوں نے پارٹی میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی بلکہ انہیں امیدوار بھی بنایا دیا گیا تھا۔ اس حلقہ انتخاب سے کُل ۱۴؍ امیدوار قسمت آزما رہے تھے جن میں متذکرہ تینوں امیدواروں کے علاوہ دیگر لوگوں کو فی امیدوار ۴۰۰؍ سے بھی کم ووٹ ملے اور دو امیدواروں کو ۱۰۰؍ سے بھی کم ووٹ ملے۔
ثنا ملک ہارتے ہارتے جیت گئیں، باپ کی جانشینی حاصل
۱۹؍ راؤنڈ کی گنتی میں ۱۷؍ راؤنڈ تک آگے رہنے کے بعد فہد احمد ۳؍ ہزار ووٹوں سے ہار گئے
انوشکتی نگر سے سابق وزیر اور سینئر لیڈر نواب ملک کی بیٹی ثنا ملک نے ان کے والد کے اسمبلی حلقہ انتخاب انوشکتی نگر سے این سی پی ( اجیت پوار) کی جانب سے پہلی مرتبہ چناؤ لڑا ۔ انہیں مہا یوتی کی پارٹیوں میں شامل بی جے پی اور شندے کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس انتخاب میں ثنا ملک نے این سی پی ( شرد پوار ) کے امیدوار فہد احمد کو ٹکر دی اور ووٹوں کی گنتی کے ۱۹؍ راؤنڈ میں سے ۱۷؍ راؤنڈ تک دونوں امیدواروں کے درمیان کاٹے کی ٹکر رہی۔ آخر کار ثنا نے باقی کے ۲؍ راؤنڈ میں سبقت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور ۳؍ ہزار ۳۷۸؍ ووٹوں کے فرق سے فہد احمد کو شکست دے دی۔
ثنا ملک کوکل ۴۹؍ ہزار ۳۴۱؍ ووٹ ملے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار فہد احمد نے ۴۵؍ ہزار ۹۶۳؍ ووٹ حاصل کئے۔ تیسرے نمبر پر مہاراشٹر نونرمان سینا( ایم این ایس) کے امیدوار آچاریہ نوین ودیا دھر کو ۲۸؍ ہزار ۳۶۲؍ ووٹ اور ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار ستیش راج گرو ۱۰؍ ہزار ۵۱۴؍ ووٹ لے کر چوتھی پوزیشن پر رہے۔
اس حلقہ سے کل ۹؍ امیدواروں نے قسمت آزمائی جن میں سے ۴؍ امیدواروں نے نوٹا سے بھی کم ووٹ لئے۔ نوٹا کو ۳؍ ہزار ۸۸۴؍ ووٹ دیئے گئے۔ جن امیدواروں نے نوٹا سے بھی کم ووٹ لیا ہے ان میں بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار ایڈوکیٹ مہیندربھنگار دیوے (۱۷۹۵؍ ووٹ)، پیس پارٹی کی امیدوار عالیہ سنجر(۹۲۴؍ ووٹ)، پیوپلس پارٹی آف انڈیا (ڈیموکریٹک) کے امیدوار مہیش ساونت (۶۴۶؍ ووٹ) اور رائٹ ٹو ری کال پارٹی کے امیدوار بالا صاحب سابلے(۵۷۱؍ ووٹ ) شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ثنا ملک کی انتخابی مہم میں نواب ملک کے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔
ذیشان صدیقی اپنی سیٹ بچانے میں ناکام، ورون فاتح
ادھو سینا کے ورون کو ۵۷؍ ہزار ووٹ ملے، ایم وی اے کیلئے اقلیتوں کی ووٹنگ کا اہم رول
چند ماہ قبل کانگریس کو خیرباد کہہ کر اپنے مرحوم والد باباصدیقی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے این سی پی (اجیت پوار) میں شمولیت اختیار کرنے والے باندرہ (مشرق) حلقہ انتخاب (۱۷۶) کے موجودہ ایم ایل اے ذیشان صدیقی اپنی سیٹ بچانے میں ناکام ہوگئے۔ ان کے مقابلے شیوسینا (ادھو) کے امیدوار ورون ستیش سردیسائی کامیاب ہوئے ہیں۔
ورون کو ۵۷؍ ہزار ۷۰۸؍ ووٹ ملے جبکہ ذیشان صدیقی کو ۴۶؍ہزار ۳۴۳؍ ووٹ ملے اور وہ ۱۱؍ہزار ۳۶۵؍ ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔
ورون شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کے رشتہ داروں میں سے ایک ہیں اور شیوسینا کے یووا پارٹی کے لیڈر ہیں۔ ذیشان صدیقی اور ان کے والد بابا صدیقی نے خاص طور پر کووڈ وباء کے دوران اور اس کے علاوہ بھی غریبوں کی بہت مدد کی ہے۔ الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل سماج دشمن عناصر نے بابا صدیقی کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ ذیشان صدیقی کو بالی ووڈ اسٹار سلمان خان کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن عوام نے ان سب جذباتوں کو دباکر ممبئی کو بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں سے چھٹکارا دلانے کیلئے مہاوکاس اگھاڑی سے شیوسینا کے امیدوار ورون دیسائی کو ووٹ دینے کو ترجیح دی۔
انتخابات کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران ذیشان نے کہا کہ اگر ان کے والد زندہ ہوتے تو ان کا تجربہ اور ان کی رہنمائی حاصل ہونے کی وجہ سے شاید الیکشن کا نتیجہ یہ نہیں ہوتا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب وہ اپنے والد کے بغیر الیکشن لڑے ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس حلقہ انتخاب سے ۱۵؍ امیدوار قسمت آزما رہے تھے جن میں ایک آزاد امیدوار ذیشان صدیقی کا ہم نام ہے لیکن عوام نے اس سے دھوکا نہیں کھایا۔ اس شخص کو محض ۳۵۹؍ ووٹ ملے۔
جتیندر اوہاڑ چوتھی مرتبہ ممبرا سے رکن اسمبلی منتخب
۹۶؍ ہزار ۲۲۸؍ ووٹوں کے فرق سے اجیت پوار کے امیدوار نجیب ملا کو شکست دی
ممبرا کلوا اسمبلی حلقہ سے این سی پی( شرد چندر پوار) کے امیدوار جتیندر اوہاڑ نے چوتھی مرتبہ فتح درج کی ہے۔ انہوں نے ۹۲؍ہزار ۲۸۸؍ ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر آنے والے اجیت پوار کی این سی پی کے امیدوار نجیب ملا کو شکست دی۔ جتیندر اوہاڑ کو مجموعی طور پر ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۴۱؍ ووٹ جبکہ نجیب ملا کو ۶۰؍ ہزار۹۱۳؍ووٹ ملے۔ امید کی جا رہی تھی کہ تیسرے نمبر پر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ( اے آئی ایم آئی ایم ) کے امیدوار سیف پٹھان آئیں گے لیکن ان سے زیادہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے امیدوار سشانت سوریہ راؤ نے ووٹ حاصل کئے۔ سشانت کو ۱۳؍ ہزار ۹۱۴؍ووٹ ملے جبکہ سیف پٹھان کو ۱۳؍ ہزار ۵۱۹؍ ووٹ ملے۔ اس نتیجہ اور احتیاط کے پیش نظر کوسہ جامع مسجد کے پاس نجیب ملا کے آفس کے پاس پولیس کا سخت بندوبست رکھا گیا تھا۔
جتیندر اوہاڑ نے ممبرا کوسہ میں مزید ترقی کے لئے کام کرنے اعلان کیا ہے۔ ممبرا کلوا اسمبلی حلقہ میں کل ۱۱؍ امیدوار تھے جن میں سے ۷؍ امیدواروں کو نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے۔ اس حلقہ سے ’نوٹا‘(ان میں سے کسی کو نہیں ) کو ۲؍ ہزار ۶۷۹؍ ووٹ ملے ۔ جن ۷؍ امیدواروں کو نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے ان میں ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار پندری ناتھ گائیکواڑ (۱۶۷۸؍ ووٹ)، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سرفراز سید(۱۰۷۸؍ ووٹ)، بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار سنتوش بھالے راؤ (۸۸۶؍ووٹ)، راشٹریہ علما کونسل کے امیدوار عامر انصاری (۸۶۱؍ ووٹ)، آزاد امیدوار جوتسناہنڈے (۶۵۹؍ ووٹ)، نربھیا مہاراشٹر پارٹی کے امیدوار مبارک انصاری (۲۱۶؍ ووٹ) اور بہوجن مہا پارٹی کی امیدوار ناز محمد احمد خان ( ۲۱۴؍ ووٹ) شامل ہیں۔ ووٹوں کی گنتی مولانا آزاد اسٹیڈیم میں کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے:سنجے رائوت نے حکمراں محاذ ’مہایوتی‘ کی زبردست جیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا
آشیش شیلار ۱۹؍ہزارسے زائدووٹوں سے کامیاب
باندرہ (مغرب )اسمبلی حلقہ ۱۷۷؍ سے کانگریس کے امیدوارآصف احمدزکریا کوشکست کا سامنا کرنا پڑا
باندرہ (مغرب)اسمبلی حلقہ ۱۷۷؍سے ممبئی بی جے پی کے صدرسابق رکن اسمبلی آشیش شیلار نے کامیابی درج کرائی۔ انہوں نے اپنے مد مقابل کانگریس کے امیدوارسابق کارپوریٹر آصف احمد زکریاکو ۱۹۹۳۱؍ ووٹوں سے شکست دی۔ آشیش شیلار کو ۸۲۷۸۰؍ ووٹ ملے جبکہ آصف زکریا کو ۶۲۸۴۹؍ ووٹوں پرہی اکتفا کرناپڑا۔ الگ الگ پارٹیوں کے یہاں مجموعی طور پر۱۰؍ امیدوار قسمت آزمائی کررہے تھے۔ تیسری پوزیشن یہاں بہوجن سماج پارٹی کےامیدوار اعجازاقبال قریشی کی تھی اوران کو۴۷۲؍ ووٹ ملے جبکہ دیگر امیدواروں کی پوزیشن اور بھی کمزور تھی۔ اصل مقابلہ کانگریس اوربی جے پی کے درمیان تھا۔ آصف زکریانےبھی کئی راؤنڈ تک اپنی سبقت قائم رکھی مگر جیسے جیسے کاؤنٹنگ آگے بڑھتی گئی دونوں کے درمیان کامیابی کافاصلہ بھی بڑھتا گیا، بالآخر بی جے پی کے امیدوار کوکامیابی حاصل ہوئی اوران کے نام کا اعلان کردیا گیا۔ اس سیٹ پرجہاں کانگریس نےقبضہ کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت لگائی تھی وہیں آشیش شیلارنے بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کےلئے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ انہیں یہ امید بھی تھی کہ ان کا بھائی بھی ملاڈ (مغرب) حلقے سے کامیاب ہوجائے گا اور اس طرح انہیں زبردست سیاسی طاقت حاصل ہوجائے گی مگر بھائی ہار گیا۔ کانگریس کی جانب سے تشہیری مہم کے آخر ی دن تک یہ کوشش کی گئی کہ اس دفعہ اس سیٹ پر بہرصورت قبضہ کرلیا جائے۔ بڑی حکمت سے ووٹروں کوراغب کرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر نتیجہ اس کےبرعکس رہا اوریہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی کی جانب سے اس سیٹ کوبچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور ووٹرو ں سے کئی طرح کے وعدے کئے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کامیاب ہوگئی۔
دھاراوی میں کانگریس کی ڈاکٹر جیوتی گائیکواڑ کامیاب
پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے والی امیدوارنے سینا (شندے) لیڈر کو ۲۳؍ہزار ووٹوں سے شکست دی
ایشیاء کی سب سے بڑی جھوپڑ پٹی دھاراوی کے حلقہ انتخاب (۱۷۸) سے پہلی مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی داکٹر جیوتی ایکناتھ گائیکواڑ شیوسینا (شندے) کے امیدوار کو پیچھے چھوڑ کر کامیاب ہوگئیں۔ جیوتی گائیکواء رکن پارلیمنٹ ورشاء گائیکواڑ، جو ممبئی کانگریس کی صدر بھی ہیں، کی بہن ہیں۔
ڈاکٹر جیوتی کو ۷۰؍ ہزار ۷۲۷؍ ووٹ ملے۔ ان کے بعد شیوسینا کے امیدوار راجیش شیوداس کھندارے کو ۴۷؍ ہزار ۲۶۸؍ ووٹ ملے۔ وہ ۲۳؍ہزار ۴۵۹؍ ووٹوں کے فرق سے شکست کھاگئے۔
واضح رہے کہ دھاراوی کی عوام میں دھاراوی کے ری ڈیولپمنٹ کا ٹینڈر اڈانی کمپنی کو دیئے جانے کے تئیں سخت ناراضگی ہے۔ مقامی افراد کی سخت مخالفت کے باوجود دھاراوی کی از سر نو تعمیر کی ذمہ داری اڈانی کمپنی سے واپس نہیں لی گئی ہے اور چونکہ شیوسینا (شندے) بی جے پی کی اتحادی پارٹی ہے اس لئے یہاں کے لوگ ان سے بھی ناراض ہیں۔
اس کے مقابلے کانگریس مہاوکاس اگھاڑی کا حصہ ہے اور ایم وی اے نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ اڈانی کمپنی سے کیا گیا دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کردیں گے۔
حالانکہ اس حلقہ انتخاب سے کُل ایک درجن امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہوئے تھے جن میں ایڈوکیٹ سندیپ دتّو کاٹکے بھی شامل ہیں۔ ایڈوکیٹ سندیپ دھاراوی کے مقامی شخص ہیں، دھاراوی بچائو آندولن کا حصہ ہیں اور اس پروجیکٹ کو اڈانی کمپنی کو دیئے جانے کی مخالفت میں کام کرتے ہیں۔ وہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑرہے تھے لیکن عوام نے انہیں انتہائی کم ووٹ دیئے۔
امین پٹیل نے لگاتار چوتھی مرتبہ ایم ایل اے کا الیکشن جیتا
الیکشن سے محض چند روز قبل شیوسینا (شندے) میں شامل ہوکر الیکشن لڑنے والی شائنا این سی کی شکست
جنوبی ممبئی کے ممبادیوی حلقہ انتخاب (۱۸۶) سے لگاتار چوتھی مرتبہ ایم ایل اے کے الیکشن میں جیت درج کرکے کانگریس امیدوار امین پٹیل نے تاریخ رقم کردی۔ اگرچہ اس الیکشن میں کانگریس کی کارکردگی انتہائی خراب رہی لیکن اپنے کام اور عوام میں مقبولیت کی بنیاد پر لگاتار ۳؍ مرتبہ ایم ایل اے رہ چکے امین پٹیل جیت گئے اور ان کو ۷۴؍ ہزار ۹۹۰؍ ووٹ ملے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب ان کا کوئی حریف ان کے ووٹوں کی تعداد کے قریب پہنچا ہو جسے کانٹے کی ٹکر کہا جاسکے۔
دوسرے نمبر پر شیوسینا (شندے) کی امیدوار شائنا این سی تھیں جو ۳۴؍ ہزار ۸۴۴؍ ووٹوں کے بڑے فرق سے ہار گئیں۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ شائنا نانا چداسما بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان تھیں اور اسمبلی انتخابات سے چند روز قبل انہوں نے بی جے پی کو خیرباد کہہ کر شیوسینا (شندے) میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور پارٹی نے انہیں ممبادیوی سے امیدوار بھی بنا دیا لیکن وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔
اس حلقہ انتخاب سے کُل ۱۱؍ امیدوار میدان میں اترے تھے جن میں جامعہ مسجد، ممبئی کے ٹرسٹیوں میں شامل محمد شعیب بشیر خطیب بھی تھے۔ وہ آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) کے امیدوار تھے اور انتخاب میں تیسرے نمبر پر رہے لیکن انہیں محض ایک ہزار ۳۱؍ ووٹ ہی ملے۔ وہ کامیاب امیدوار امین پٹیل سے ۷۳؍ ہزار ۹۵۹؍ ووٹوں سے پیچھے رہے۔
امین پٹیل کو نہ صرف غیرسرکاری تنظیم پرجا نے کئی مرتبہ بہترین ایم ایل اے قرار دیا ہے بلکہ انہیں کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسیشن (سی پی اے) کے توسط سے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے ہاتھوں ’موسٹ آئوٹ اسٹیندنگ پارلیمنٹیریئن‘ کا ایوارڈ بھی دیا جاچکاہے۔
حالانکہ سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین اور بھوجپوری فلموں کے اداکار، گلوکار اور بی جے پی لیڈر منوج تیواری نے شائنا این سی کی انتخابی مہم میں شرکت کرتے ہوئے اس حلقہ انتخاب کے رائے دہندگان سے شائنا این سی کو ووٹ دینے کی درخواست بھی کی تھی اور دیگر کئی لیڈران بھی ان کی انتخابی مہم میں شریک ہوئے تھے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔
آدتیہ ٹھاکرے کو روکنے میں ملند دیورا بھی ناکام
شیو سینا کی تقسیم کے بعد منعقد ہونے والے مہاراشٹر اسمبلی کےانتخابات میں ۴۷؍ سیٹوں پر ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کا سیدھا مقابلہ ایکناتھ شندے کی شیو سینا کے امیدوار سے تھا۔ ان ہی میں سے ایک اہم سیٹ ورلی اسمبلی حلقہ کی بھی تھی۔ یہاں پر شیو سینا ( یو بی ٹی ) کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کے فرزند و سابق ریاستی وزیر آدتیہ ٹھاکرے ( جو موجودہ رکن اسمبلی بھی ہیں ) کا مقابلہ کانگریس سے ایکناتھ شندے کی شیو سینا میں شمولیت اختیار کرنے والے ملند مرلی دیورا سے ہوا۔ اس کانٹے کی ٹکر میں آدتیہ ٹھاکرے نے ۸؍ ہزار ۸۰۱؍ ووٹوں سے برتری حاصل کی۔ آدتیہ کو ووٹوں کی گنتی کے کل ۱۷؍ راؤنڈ میں مجموعی طور پر ۶۳؍ ہزار ۳۲۴؍ ووٹ ملے جبکہ ملند دیورا نے ۵۴؍ ہزار ۵۲۳؍ ووٹ حاصل کئے۔ چونکہ اس حلقہ میں بڑی تعداد کاروباریوں کی ہیں اس لئے یہ سمجھا جارہا تھا کہ سابق مرکزی وزیر ملند دیورا امیدوار ہونے کے سبب انہیں حمایت ملے گی لیکن وہ آدتیہ سےزیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکے۔ اس حلقہ میں ۳؍ اہم پارٹیوں کے امیدواروں میں کانٹا کا مقابلہ ہونے کی امید ظاہر کی جارہی تھی اور مہاراشٹر نو نرمان سینا(این ایم ایس) کے امیدوار سندیپ دیشپانڈے کو بھی اہم سمجھا جارہا تھا لیکن سندیپ کو ۱۹؍ ہزار ۳۶۷؍ ووٹ ہی ملے اور وہ تیسری پوزیشن پر رہے۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کے امیدوار امول آنند نکلجے کے حصہ میں ۲؍ ہزار ۸۸۵؍ ووٹ آئے اور وہ چوتھی پوزیشن پر رہے۔
۶؍ امیدواروں کو نوٹا سے بھی کم ووٹ
ورلی اسمبلی حلقہ میں ۱۰ ؍امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی ہے ان میں سے ۶؍ امیدوار ایسے رہے جنہیں ووٹروں نے نوٹا سے بھی کم ووٹ دیئے۔ ان میں بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار سریش کمار گوتم کو ۷۳۰؍ ووٹ اور ریپبلکن سینا پارٹی کے امیدوار امول روکڈے کی جھولی میں ۳۰۹؍ ووٹ، آزاد امیدوار محمد ارشاد شیخ کو ۲۱۰؍ ووٹ، ’ایئم پالیٹکل پارٹی کے امیدوار رضوانرحمان قادری کو ۱۹۹؍ ووٹ کے علاوہ ۲؍ چھوٹی پارٹیوں کے وہ امیدوار بھی ہیں جنہیں ۱۰۰؍ ووٹ بھی نہیں ملے۔ ان میں امبیڈکر پارٹی آف انڈیا کےامیدوار بھیم راؤ ساونت کو ۹۸؍ ووٹ ملے جبکہ سمتا پارٹی کے امیدوار بھگوان بابا صاحب نگر گوجے کو محض ۹۴؍ ووٹ ملے۔
مظفر حسین دوسری پوزیشن پر، بی جے پی کے نریندر مہتا جیتے
گزشتہ مرتبہ فتح درج کرنے والی گیتا جین بھی ایک لاکھ ۲۱؍ ہزار ووٹ سے پچھڑ گئیں
میرا بھائندر میں امید کی جارہی تھی کہ کانگریس کےامیدوار مظفر حسین جیت سکتے ہیں لیکن بی جے پی کےامیدوار نریندر مہتانے بازی مار لی اور ۶۰؍ ہزار ۴۳۳؍ ووٹوں کی سبقت سے فتح درج کرائی۔ نریندر مہتا کو ایک لاکھ ۴۴؍ ہزار ۳۷۶؍ ووٹ ملے جبکہ مظفر حسین کے حصے میں ۸۳؍ ہزار ۹۴۳؍ ووٹ آئے۔ تیسری پوزیشن پر آزاد امیدوار گیتا جین رہیں جنہیں ۲۳؍ ہزار ۵۱؍ ووٹ ملے۔ یاد رہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب ۲۰۱۹ء میں گیتا جین (آزاد) نے ۱۵؍ہزار ۵۳۵؍ ووٹ کے فرق سے نریندر مہتا کو شکست دی تھی جو کہ اس وقت کئے گئے کل ووٹ کا ۷ء۳۴؍ فیصد تھا۔ اس اسمبلی الیکشن میں مہاراشٹر نونرمان سینا ( ایم این ایس) کے امیدوار سندیپ رانے کی جھولی میں ۵؍ ہزار ۲۴۳؍ ووٹ ملے۔
میرا بھائیندر سیٹ کیلئے کل ۱۷؍ امیدوار وں نے قسمت آزمائی، جن میں سے ۱۳؍امیدواروں کے کھاتے میں ایک ہزار سے بھی کم ووٹ آئے۔ ان میں آزاد امیدوار ارون کدم کو ۹۹۱؍ ووٹ، بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کالی چرن ہریجن کو ۸۳۰؍ ووٹ، آزاد امیدوار ہنسو کمار پانڈے کو ۳۳۶؍ ووٹ، ریپلکن پارٹی آف انڈیا (اے) کی امیدوار ارونا چکرے کو ۳۰۳؍ ووٹ، آزاد امیدوار بابوراؤ شندے کو ۲۸۶؍ ووٹ، راشٹریہ سوراجیہ سینا پارٹی کے امیدوار ایڈوکیٹ ارون کمار کھیڈیا کو ۲۶۳؍ ووٹ، آزاد امیدوار کھرات رنویندر بابا صاحب کو ۲۵۷؍ ووٹ، ایڈوکیٹ محسن شیخ کو ۲۵۵؍ اسی طرح سُکیتو راجیش (آزاد) کو ۲۵۵؍ ووٹ، جنگم پردیپ دلیپ(آزاد) کو ۱۹۷؍ ووٹ کرن شرما(آزاد) کو ۱۱۴؍ ووٹ، ہندو سماج پارٹی کے امیدوار جین سُریندر کمار کو ۷۸؍ ووٹ اور سردار ولبھ بھائی پٹیل پارٹی کے امیدوار ستیہ پرکاش چورسیا کو محض ۷۲؍ ووٹ ملے۔
امتیاز جلیل کی شکست، افسوسناک اور مایوس کن نتیجہ
سماج وادی پارٹی کو ۵؍ ہزار اور کانگریس کو ۱۰؍ ہزار ووٹ، امتیاز ۲؍ ہزار ووٹوں سے ہار گئے
مجلس اتحادالمسلمین کا قلعہ سمجھے جانے والے اورنگ آباد شہر سے پارٹی نے اپنے سپہ سالار کو کھو دیا ہے۔ یہاں مہاراشٹر ایم آئی ایم کے صدر امتیاز جلیل کو محض ۲؍ ہزار ۱۶۱؍ ووٹوں سے شکست ہوئی ہے۔ ان کا مقابلہ ریاستی وزیر اتل ساوے سے تھا جو کہ بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔
صبح گنتی شروع ہوتے ہی امتیاز جلیل نے اپنے مخالف کھڑے تمام امیدواروں پر یکطرفہ سبقت حاصل کر رکھی تھی، دوپہر بعد تک ایسا لگا کہ بس اب امتیاز جلیل کی جیت کا اعلان ہونے ہی والا ہے۔ لیکن شام ہوتے ہوتے آخر کے کچھ رائونڈ میں اتل ساوے میدان مار گئے اور امتیاز جلیل کو انتہائی قریبی مقابلے میں شکست ہوئی۔ امتیاز جلیل کی شکست اسلئے قابل ذکر ہے کہ وہ ۲۰۱۹ء میں اورنگ آباد سے پارلیمانی الیکشن جیت چکے ہیں ۔
دوسری بار یعنی اسی سال ۲۰۲۴ء میں ۳؍ لاکھ ۴۱؍ ہزار ووٹ لے کر وہ دوسرے نمبر پر تھے۔ اس بار ناموس رسالت ؐ کے نام پر نکالی گئی ریلی کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس لئے امید تھی کہ وہ آسانی سے اپنی سیٹ جیت لیں گے لیکن عین الیکشن سے قبل ایم آئی ایم کے کارگزار ریاستی صدر غفار قادری نے پارٹی چھوڑ دی اور سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں کھڑے ہو گئے۔ امتیاز جلیل کے سامنے کل ۱۳؍ مسلم امیدوار لڑ رہے تھے۔ ان میں غفار قادری نے ۵؍ ہزار۹۴۳؍، ونچت بہو جن اگھاڑی کے افسر خان نے ۶؍ ہزار ۵۰۷؍ ووٹ لئے۔ جبکہ دیگر ۱۱؍ مسلم امیدواروں نے مجموعی طور پر ۱۴۵۲؍ ووٹ لئے۔ حیران کن طور پر مولانا سجاد نعمانی نے اورنگ آباد کی سیٹ پر امتیاز جلیل کے بجائے کانگریس کے امیدوارہنومنت رائو شیوالے کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس نے ۱۲؍ ہزار ۵۶۸؍ ووٹ حاصل کئے اور امتیاز جلیل صرف۲؍ ہزار ۱۶۱؍ ووٹوں سے ہار گئے۔
نصیر صدیقی نے مقابلہ خوب کیا لیکن شکست کھا گئے
ونچت بہوجن اگھاڑی کا امیدوار میدان میں نہ ہوتا تو یہاں ایم آئی ایم کی جیت یقینی تھی
مجلس اتحاد المسلمین کے دبدبے والی ایک اور سیٹ اورنگ آباد ( سینٹرل ) پر بھی سخت مقابلہ ہوا جس میں ایم آئی ایم امیدوار نصیر صدیقی ۸؍ ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ نصیر کا مقابلہ ایکناتھ شندے کی شیوسینا کے امیدوار پردیپ جیسوال سے تھا جو صبح سے آگے چل رہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی نصیر صدیقی کے ووٹ بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ نصیر صدیقی مقابلے سے باہر کبھی نہیں ہوئے بلکہ دوپہر بعد وہ جیسوال سے آگے ہوگئے۔
یاد رہے کہ اورنگ آباد (سینٹرل ) ان سیٹوں میں سے تھی جن پر سب کی نظریں تھیں۔ ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے سب سے زیادہ ریلیاں اورنگ آباد ( ایسٹ ) اور اورنگ آباد ( سینٹرل) ہی میں کی تھیں۔ انہوں نے اپنی ہر تقریر میں امتیاز جلیل ( اورنگ آباد ایسٹ ) اور نصیر صدیقی کا نام ایک ساتھ لیا لیکن ایک آنچ کی کسر رہ گئی اور دونوں ہی امیدوار شکست کھا گئے۔ نصیر صدیقی کو کل ۷۷؍ ہزار۳۴۰؍ ووٹ ملے جبکہ پردیپ جیسوال نے ۸۵؍ ہزار ۴۵۹؍ حاصل کئے۔ اس طرح وہ ۸؍ ہزار ۱۱۹؍ ووٹ سے الیکشن ہار گئے۔ یاد رہے کہ ان کے سامنے مہا وکا س اگھاڑی کی جانب سے شیوسینا (ادھو) کے بالا صاحب تھورات بھی میدان میں تھے جنہیں ۳۷؍ ہزار ۹۸؍ ووٹ ملے۔ ساتھ ہی ونچت بہوجن اگھاڑی کے محمد جاوید اسحاق بھی لڑ رہے تھے جنہوں نے ۱۲؍ ہزار ۶۳۹؍ ووٹ لے لئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہی ووٹ نصیر صدیقی کی شکست کا سبب بنے۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی مسلم امیدوار میدان میں تھے لیکن ان سب کو ملاکر ایک ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ شام ہوتے ہوتے شیوسینا ( شندے) خیمے میں کھلبلی مچ گئی تھی لیکن بالآخر پردیپ جیسوال کو کسی طرح کامیابی ملی اور اورنگ آباد سے مسلم نمائندگی پوری طرح ختم ہو گئی۔
تمام مخالفتوں کے باوجود عبدالستار سلوڈ سے کامیاب
کانٹے کی ٹکر میں شیوسینا ( شندے) کے امیدوار نے شیوسینا ( ادھو ) کو شکست دی
اورنگ آباد ضلع میں واقع سلوڈ اسمبلی حلقے میں ریاستی وزیر عبدالستار نے اپنا دبدبہ قائم رکھا ہے۔ حالانکہ اس بار ان کے حلیف اور حریف سب کے سب ان کے خلاف تھے۔ دن بھر ہوئی کانٹے کی ٹکر کے بعد عبدالستار نے بازی مار لی اور شیوسینا (ادھو) کے اپنے حریف سریش پانڈورنگ کو صرف ۲؍ ہزار کے فرق کے ساتھ شکست دی۔
یاد رہے کہ عبدالستار کبھی کانگریس میں ہوا کرتے تھے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن سے قبل وہ شیوسینا ( غیر منقسم) میں شامل ہوئے اس کے بعد جب ۲۰۲۲ء میں ایکناتھ شندے نے بغاوت کرکے ادھو ٹھاکرے کا ساتھ چھوڑا تو وہ ان کے ساتھ چلے گئے۔ وہ ہر حکومت میں وزیر رہے۔ اس بار نہ صرف شیوسینا (ادھو ) بلکہ خود ان کی حلیف بی جے پی بھی ان کے خلاف تھی اور انہیں ہرانے کی مہم چلا رہی تھی۔ ادھو ٹھاکرے نے توبی جے پی والوں سے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ہمارے سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عبدالستار کو ہرانے میں میری مدد کریں ۔
سنیچر کو جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ عبدالستار اپنی زمین کھو دیں گے۔ وہ شروع میں اپنے حریف سریش پانڈورنگ سے آگے چل رہے تھے پھر دوپہر کے وقت اچانک ۲؍ ہزار ووٹوں سے پیچھے ہو گئے۔ دونوں میں کانٹے کی ٹکر رہی۔ کبھی ایک کو سبقت حاصل ہوتی تو کبھی دوسرے کو بالآخر شام ہوتے ہوتے حتمی نتیجہ آ گیا۔ عبدالستار نے کل ایک لاکھ ۳۷؍ ہزار ۹۶۰؍ ووٹ لئے جبکہ سریش پانڈورنگ کو ایک لاکھ ۳۵؍ ہزار ۵۴۰؍ ووٹ حاصل ہوئے اس طرح ۲؍ ہزار ۴۲۰؍ ووٹوں سے عبدالستار کو جیت نصیب ہوئی۔ یہ ان کی اپنی سیٹ سے مسلسل چوتھی جیت ہے۔
دن بھر کی جدوجہد کے بعد مفتی اسماعیل نے سیٹ بچالی
محض ۱۶۱؍ووٹوں سے جیت کے بعد ری کائونٹنگ کروائی گئی مگر ان کی جیت برقرار رہی
مالیگائوں (سینٹرل) سیٹ سے مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار مفتی محمد اسماعیل نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے اپنے روایتی حریف آصف شیخ رشید (انڈین سیکولر پارٹی)کو۱۶۲؍ ووٹوں کے معمولی فرق سے ہر ادیا۔ الیکشن آفیسر نتن سدگیر نےکامیابی کا اعلان رات ۸؍ بج کر ۵۱؍ منٹ پر کیا۔ مفتی اسماعیل کوایک لاکھ ۹؍ہزار ۶۵۳؍ ووٹ ملے جبکہ آصف شیخ کوایک لاکھ ۹؍ ہزار۴۹۱؍ووٹ ملے۔ مفتی اسماعیل اور شیخ آصف کے علاوہ شانِ ہند (سماج وادی پارٹی ) اور اعجاز عزیز بیگ(کانگریس) بھی میدان میں تھے۔ شانِ ہند کو ۹؍ہزار اور اعجاز کو محض ۷؍ہزار ووٹ ہی مل سکے۔ ان دونوں نے تبدیلی کے نعرے کےساتھ الیکشن میں حصہ لیاتھا۔
رائے شماری کے مرکز شیواجی جمخانے میں صبح ۷؍بجے امیدواروں کے ذریعے آئے کائونٹنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی سیل توڑی گئی۔ ۲۵؍ رائونڈ میں رائے شماری کی تکمیل لازمی تھی۔ پہلے رائونڈ سے ہی آصف شیخ کی سبقت حاصل تھی۔ ۱۰؍ ویں رائونڈ کے بعد انہیں ملنے والی سبقت ۱۳؍ ہزار ووٹوں سے زائد ہوئی۔ ۱۵؍ویں رائونڈ میں مفتی اسماعیل کو چند سو ووٹ زائد ملے جو اگلے کئی رائونڈ میں ایک ہزار سے زائد ہوگئے۔ یہیں سے انتخابی نتائج کے اعداد وشمار کا کھیل شروع ہوا اور ۲۴؍ویں شمار میں انڈین سیکولر پارٹی کے امیدوار کی شکست واضح ہوگئی۔ ۲۵؍ویں رائونڈ میں ۱۶۲؍ووٹوں سے مفتی محمد اسماعیل قاسمی کی کامیابی کا اعلان ہونے والا تھاکہ مخالف پارٹی کے نمائندوں نے ازسرنورائے شماری کی درخواست دی۔ سہ پہر سے رِی کائونٹنگ کا سلسلہ جاری رہا لیکن انتخابی نتائج کے اعداد وشمار جوں کے توں رہے۔ مجلس امیدوار کی کامیابی پر شہر میں اعلیٰ پیمانے پر جشن منایا گیا۔
رئیس شیخ نے دوبارہ بڑے فرق سے جیت حاصل کی
۵۷؍ ہزار ووٹوں سے الیکشن جیت کر سماج وادی پارٹی امیدوار نے فتح کی تاریخ رقم کی
سماج وادی پارٹی کے اُمیدوار رئیس شیخ نے شیوسینا کے اُمیدوار سنتوش شیٹی کو ۵۷؍ہزار ۴۰؍ووٹوں سے شکست فاش دیکردوسری مرتبہ بھیونڈی( مشرق) سے کامیابی حاصل کی۔ بھیونڈی اسمبلی الیکشن کی تاریخ میں کسی اُمیدوار کی یہ سب سے بڑی جیت انہیں جہاں مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیا وہیں غیرمسلم بالخصوص مراٹھاسماج کے لوگوں نے بھی ووٹ دیا۔ واضح رہے کہ رئیس شیخ گنتی کی شروعات ہی سے اپنے حریف شیوسینا سنتوش شیٹی پر حاوی تھے۔ ان کی سبقت میں ہر راؤنڈ کے بعد اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رئیس شیخ کو ایک لاکھ ۱۸؍ہزار ۷۵۷؍ووٹ ملے۔ جبکہ ان کے حریف شیوسینا(شندے) کے سنتوش شیٹی کو ۶۱؍ہزار ۷۱۷؍ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اسکے ساتھ ہی بہوجن سماج پارٹی کے پرشرام پال ۵۰۷؍ووٹ، ایم این ایس کے منوج گلوی کو ۷۲۸؍، نارائن پرتاپ کو ۳۸۲؍ اور اسماعیل مرچی کو ۳۹۹؍ووٹ ملے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی لوگ میدان میں تھے جیسے ، تیجس صاحب راؤ جنہیں ۱۵۹؍ ووٹ ملے۔ پرکاش ارون اودئے ۱۸۱؍ اور رفیق اسماعیل کو۵۰۳؍ووٹ ملے۔ نیز، وشال وجے مورے کو ۱۸۲؍ اور شنکر ناگیش کو۱۶۴؍ ووٹ ملے۔ جبکہ نوٹا نے بھی ۶۸۴؍ووٹ لئے۔ رئیس شیخ کی جیت نے بھیونڈی کے مسلم رائے دہندگان کو سرشار کردیا ہے۔ عوام اور سماج وادی کارکنان نے فتح جشن منانے کیلئے ریلی نکالی جس میں رئیس شیخ کو مبارکباد ینے کیلئے ہزاروں بڑی تعداد میں لوگ پہنچے۔ یاد رہے کہ رئیس شیخ ممبئی کے مدنپورہ علاقے سے کارپوریٹر تھے لیکن انہوں نے ۲۰۱۹ء میں سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر بھیونڈی سے اسمبلی الیکشن لڑا۔ اس بار یہی ایک سیٹ تھی جہاں سے کسی مسلم امیدوار کی جیت یقین معلوم ہو رہی تھی اور رئیس شیخ اس یقین پر پورے اترے۔
حسن مشرف نے کاگل سیٹ پر اپنا دبدبہ قائم رکھا
ریاستی وزیر نے اپنی پرانی پارٹی کو شکست فاش دی اور کامیابی کا سلسلہ برقرار رکھا
ریاستی وزیر حسن مشرف کولہا پور ضلع کی اپنی روایتی سیٹ کاگل سے امیدوار تھے۔ یہاں سب سے دلچسپ مقابلہ تھا کیونکہ جس سمرجیت گھاٹگے کے الزامات کی وجہ سے حسن مشرف کو ای ڈی کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور جن کی آئے دن کی تکراروں سے پریشان ہوکر حسن مشرف شرد پوار کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوئے تھے وہی سمرجیت گھاٹگے عین الیکشن سے قبل بی جے پی کو چھوڑ کر شرد پوار کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ لوگ کہنے لگے کہ جو کمیونل تھا وہ سیکولر فورس کی طرف سے الیکشن لڑ رہا تھا اور جو سیکولر کہلاتا تھا وہ کمیونل فورس کا سپاہی بن گیا ہے۔ حسن مشرف پورے اعتماد کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔ ووٹوں کی گنتی شروع ہوتے ہی ان کی سبقت بھی شروع ہو گئی تھی جو کہ دن بھر قائم رہی۔ انہوں نے کل ایک لاکھ ۴۵؍ ہزار ۲۶۹؍ ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مدمقابل سمرجیت گھاٹگے نے ایک لاکھ ۳۳؍ ہزار ۶۸۸؍ ووٹ لئے۔ یعنی گھاٹگے کو ۱۱؍ ہزار ۵۸۱؍ ووٹوں سے شکست ہوئی جو حسن مشرف کے ریکارڈ کے حساب بہت معمولی ہے۔ ورنہ یہی سمر جیت گھاٹگے گزشتہ الیکشن میں بطور آزاد امیدوار ان کے سامنے مقابلے میں تھے اس وقت انہیں ۸۸؍ ہزار سے کچھ اوپر ووٹ ملے تھے اور حسن مشرف کو ایک لاکھ ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔
اس وقت جیت کا فرق ۲۸؍ ہزار کا تھا۔ جبکہ شیوسینا (غیر منقسم ) کے سنجے گھاٹگے بھی میدان میں تھے جنہوں نے ۵۵؍ ہزار ووٹ لیا تھا۔ اس بار دیگر امیدواروں کو کوئی خاص ووٹ نہیں ملے۔ تیسر ے نمبر کے امیدوار کو ۲؍ ہزار ۳۱۹؍ ووٹ ملے ہیں۔ اس بار دونوں میں کانٹے کی ٹکر تھی لیکن حسن مشرف اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہے۔ یاد رہے کہ کولہاپور ضلع میں حسن مشرف کا کافی دبدبہ ہے۔