اشوک چوان، فرنویس، شندے جو وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں انہیں بطور وزیر کام کرنا پڑا، چھگن بھجبل کو پہلی بار اقتدار میں ہوکر بھی وزارت نہیں ملی
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 7:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اشوک چوان، فرنویس، شندے جو وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں انہیں بطور وزیر کام کرنا پڑا، چھگن بھجبل کو پہلی بار اقتدار میں ہوکر بھی وزارت نہیں ملی
مہاراشٹر میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ کابینہ نے حلفبھی اٹھا لیااور قلمدانوں کی تقسیم بھی کر دی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ حکومت میں جو ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ تھے وہ اب نائب وزیر اعلیٰ ہیں اور جو دیویندر فرنویس نائب وزیر اعلیٰ تھےانہوں نے اب وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھال لی ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ ایکناتھ شندے کا عہدے کے اعتبار سے تنز ل ہے۔ لیکن یہ پہلا معاملہ نہیں ہے جب کسی بڑے لیڈر کو اپنے رتبے سے نیچے اتر کر کام پڑ رہا ہو ۔ گزشتہ ۵؍ میں مسلسل کئی بڑےلیڈروں کو مہاراشٹر میں تنزل کا سامنا کرنا پڑ ا ہے۔ گزشتہ حکومت میں جب ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو دیویندر فرنویس کو ان کا نائب بنا یا گیا۔ دیویندر فرنویس خود اس سے قبل یعنی ۲۰۱۴ء تا ۲۰۱۹ء ریاست کے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے۔ انہوں نے نعرہ دیا تھا کہ ’’ میں دوبارہ آئوں گا۔‘‘ جب ادھو ٹھاکرے کی حکومت کو گرا کر ایکناتھ شندے بی جے پی کے ساتھ چلے گئے تو لوگوں نے یہی سمجھا تھا کہ اب فرنویس دوبارہ آئیں گے یعنی وزیر اعلیٰ بنیں گے لیکن قرعہ فال شندے کے حق میں نکلا۔ صر ف مہایوتی میں نہیں بلکہ مہا وکاس اگھاڑی میں بھی اس طرح کا تنزل دکھائی دے چکا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت آنے سے قبل ۱۵؍ سال تک کانگریس ،این سی پی کی حکومت تھی۔ اس دوران اشوک چوان اور پرتھوی راج چوہان دونوں ہی باری باری وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ عام طور پر کسی ریاست کے وزیر اعلیٰ کو اس کا عہد ہ ختم ہونے کے بعد ترقی دے کر مرکز میں بلالیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں جب ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں مہا وکاس اگھاڑی حکومت قائم ہوئی تو اشوک چوان نے بطور وزیر برائے پی ڈبلیو ڈی ادھو ٹھاکرےکے ماتحت کام کیا۔ پرتھوی راج چوہان بھی اس حکومت کا حصہ تھے لیکن انہوں نے کوئی وزارت قبول نہیں کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: کانگریس کا ملک گیر احتجاج، امیت شاہ کے استعفیٰ پر اِصرار
ویسے ماضی میں تھوڑا اور پیچھے جائیں تو کبھی شیوسینا کے سب سے اہم ناموں میں سے ایک سمجھے جانے والے نارائن رانے ۱۹۹۹ء میں ۶؍ ماہ کیلئے شیوسینا ۔ بی جے پی حکومت میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال چکے تھے ۔جب وہ شیوسینا چھوڑ کر کانگریس میں گئے تھے تو انہیں یہی توقع تھی کہ انہیں وزیراعلیٰ بنایا جائے گا۔ اس کے لئے انہوں نے کانگریس کی شرط کے مطابق کئی ایسی سٹیوں پر جہاں شیوسینا کا قبضہ تھا انہیں اپنے دم پر جیت دلاکر کانگریس کی جھولی میں ڈلوایا تھا لیکن انہیں وزارت اعلیٰ نہیں ملی بلکہ وزیر محصول کے طور پر کام کرنا پڑا۔ بہر حال یہ ایک اہم قلمدان تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ادھو ٹھاکرے کا وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنا بھی ان کا کوئی بڑا کارنامہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے قبل صورتحال یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ سمیت بیشتر وزراء خود چل کر ماتوشری جایا کرتے تھے۔۲۰۱۹ء کے الیکشن سے قبل بھی امیت شاہ خود ادھو ٹھاکرے کے گھر گئے تھے لیکن ادھو کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کا وہ دبدبہ کم ہو گیا۔ وہ خود منترالیہ گئے اور لوگوں نے ماتوشری آنا کم کر دیا۔ ایک طرح سے وزیر اعلیٰ کا عہدہ ماتوشری کے ماتحت ہوتا تھا لیکن ادھو کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یہ نظم تبدیل ہو گیا۔ ویسے اس بار ایک اور تنزل دیکھنے کو ملا ہے۔ ۱۹۸۵ء کے بعد مسلسل ترقی کی طرف جانے والے چھگن بھجبل کو پہلی بار یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ ان کی پارٹی حکومت میں شامل ہوتے ہوئے بھی انہیں کوئی وزارت نہیں دی گئی۔ انہیں بطور رکن اسمبلی کام کرنا پڑے گا۔