• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملائیشیا: میانمار کے ۳۰۰؍ تارکین وطن کو لے جارہی دو کشتیوں کو ملک بدر کر دیاگیا

Updated: January 05, 2025, 3:08 PM IST | Inquilab News Network | KUALA LUMPUR

ملائیشیا کی ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی نے کہا کہ اس نے ملک کی بحری سرحد میں داخل میانمار کے۳۰۰؍ غیر دستاویزی تارکین وطن کو لے جاری دو کشتیوں کو سرحد سے نکال دیا۔

A photo of the boat released by the Malaysian Maritime Enforcement Agency. Photo: PTI
ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی کے ذریعے جاری کی گئی کشتی کی تصویر۔ تصویر: پی ٹی آئی

ملائیشیا نے سنیچر کو  کہا کہ اس نے میانمار کے تقریباً ۳۰۰؍ غیر دستاویزی تارکین وطن کو لے جانے والی دو کشتیوں کو ملک کی آبی حدود سے نکال دیا۔ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی (ایم ایم ای اے) نے کہا کہ کشتیاں جمعے کی شام دیر گئے لنگکاوی کے شمالی تفریحی مقام سے دو سمندری میل جنوب مغرب میں موجود تھیں۔ڈائریکٹر جنرل محمد روزلی عبداللہ نے ایک بیان میں کہاکہ ’’، ایم ایم ای اے نے کشتیوں کو اپنا سفر جاری رکھنے کیلئے قومی سمندری سرحد سے باہر نکالنے سے پہلے خوراک اور پینے کے صاف پانی سمیت دیگر مدد فراہم کی۔ ہم ان کشتیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں اضافی معلومات حاصل کرنے کیلئے تھائی حکام کے ساتھ بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔‘‘جمعے کو ملائیشیا کی پولیس نے میانمار سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۲۰۰؍مشتبہ روہنگیا مہاجرین کو اس وقت حراست میں لے لیا جب ان کی کشتی لنگکاوی میں داخل ہو گئی۔

یہ بھی پڑھئے: برازیل: عدالت کا تاریخی اقدام، اسرائیلی فوجیوں کے خلاف تفتیش کا حکم

واضح رہے کہ روہنگیا بنیادی طور پر بدھ مذہب کی اکثریت والے ملک میانمار سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں وہ ظلم و ستم اور نسل کشی کاسامنا کر رہے ہیں۔ظلم و ستم سے بچنے کیلئے بہت سے صاحب حیثیت افراد، ملائیشیا یا بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپ کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اکثر کشتی کے ذریعے ملائیشیا پہنچنے یا تھائی لینڈ کے ساتھ اس کی غیر محفوظ سرحد کے ذریعے ملک میں گھسنے کیلئے مہینوں طویل سمندری سفر کا سامنا کرتے ہیں۔اگر پکڑے جاتے ہیں، تو انہیں اکثر حراستی مراکز میں بھیجا جاتا ہے جن کے بارے میں حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ وہاں بنیادی انسانی سہولت میسر نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ وہاں عام طور پر زیادہ بھیڑ ہوتی ہے، اور صاف صفائی کا ناقص انتظام ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK