• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مالیگاؤں ۲۰۰۸ء بم دھماکہ معاملہ :۱۶؍سال گزرجانے کے بعد بھی متاثرین انصاف سے محروم

Updated: September 30, 2024, 1:00 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

متاثرہ عرضداشت گزار کے بقول ۶؍مہلوکین اور۱۰۰؍ سے زائد متاثرین کے اہل خانہ مقدمہ کی طوالت سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔

In Bhakko Chowk (Hemant Karkre Chowk), the place where the bomb exploded in 2008. Photo: INN
بھکو چوک(ہیمنت کرکرے چوک) میں وہ جگہ جہاں پر۲۰۰۸ء میں  بم دھماکہ ہواتھا۔ تصویر : آئی این این

۲۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو صنعتی شہر مالیگاؤں کے بھکو چوک میں ہونے والے بم دھماکہ جس میں ۶؍ افراد ہلاک اور ۱۰۰؍ سے زائد شہری زخمی ہوئے تھے، ۱۶؍ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔ دھماکہ سے متاثرہ عرضداشت گزار کے بقول مقدمہ کی طوالت کے سبب انصاف کے منتظر متاثرین کے اہل خانہ مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ 
خیال رہے کہ بروز پیر ۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو کلیدی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کے علاوہ دیگر ملزمین کے دفاعی وکلاء اپنی جرح مکمل کریں گے۔ اس کے بعد منگل سے وکیل استغاثہ کی بحث شروع کرے گا۔ مذکورہ بالا معاملہ میں جمعیۃ علما ء مہاراشٹر کی قانونی مدد کے سبب اس معاملہ میں مداخلت کار کی حیثیت سے اپیل کرنے والے نثار احمد کا کہنا ہے ’’کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود ۱۶؍ سالہ کا طویل عرصہ گزرگیا ہےلیکن نہ تو انصاف مل سکا اور نہ اب تک فیصلہ ہی آسکا ہے اور اب بھی متاثرین شدت سے فیصلہ کے منتظر ہیں۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:’’جب تک مودی کو اقتدار سے ہٹانہیں لیتا تب تک میں مروں گا نہیں‘‘

جمعیت لیگل سیل کے صلاح کار و معاون وکیل شاہد ندیم کے بقول ’’اس کیس کی کلیدی ملزمہ اور بی جے پی ممبر آف پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے علاوہ کرنل شریکانت پرساد پروہت، میجر رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجئے راہیکرسدھاکر دھر دویدی اور سدھاکر چترویدی کے خلاف خصوصی این آئی اے عدالت کے جج اے کے لاہوٹی کے روبرو مقدمہ کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انصاف کے منتظر متاثرین اب مایوس ہونے لگے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر جمعیۃ علماء کے توسط سے مذکورہ بالا معاملہ میں مداخلت نہیں کی جاتی تو بہت ممکن تھا کہ کیس کے کلیدی ملزمین سمیت دیگر ملزمین کو کیس سے ڈسچارج کر دیا جاتا۔ ‘‘
  ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ مقدمہ کی طوالت کی کئی وجوہات ہیں جس میں نہ صرف سابقہ تفتیشی ایجنسی اے ٹی ایس کی عدم دلچسپی ہے بلکہ مرکزاور ریاست میں حکومتوں اور تفتیشی ایجنسی کی تبدیلی کے علاوہ ملزمین کے ذریعہ مقدمہ کے خلاف کی جانے والی اپیلوں کے سبب بھی مقدمہ طویل ہوتا چلا گیا۔ تاہم موجودہ تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی ملزمین کے خلاف کمزور پیروی بھی ملزمین کو راحت ملنے اور ضمانت حاصل کرنے میں آسانی پیدا کاایک سبب رہی ہے۔ یہی نہیں اس سلسلہ میں گواہوں کی لمبی فہرست بھی مقدمہ پر فیصلہ آنے اورشنوائی کے طویل ہونے کااہم سبب ہے۔ ‘‘ 
 بہر کیف گزشتہ مقدمہ کی سماعت آخری مرحلہ پر پہنچ گئی ہے لیکن اب بھی اس پر فیصلہ آنے میں کتنی تاخیر ہوگی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK