اپنے ترانے کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے والے مروان عبدالحمید جو سینٹ لیونٹ نام سے موسیقی کی دنیا میں جانے جاتے ہیں،مانچسٹر پہنچے، جہاں انہوں نے اپنی موسیقی اور ترانے کے ذریعے فلسطینی جذبے اورروح کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 10:01 PM IST | Inquilab News Network | Manchester
اپنے ترانے کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے والے مروان عبدالحمید جو سینٹ لیونٹ نام سے موسیقی کی دنیا میں جانے جاتے ہیں،مانچسٹر پہنچے، جہاں انہوں نے اپنی موسیقی اور ترانے کے ذریعے فلسطینی جذبے اورروح کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
فلسطین جس کی کہانی ۱۹۴۸ء سے شروع ہوتی ہے، ایک پیچیدہ اور تہہ دار داستان ہے، جس کی جڑیں نوآبادیاتی عمل سے جڑی ہیں،سینٹ لیونٹ نے نوآبادیاتی ماضی کو حال میں اپنی فنکارانہ گفتگو کے ذریعے منظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی۔ مروان عبدالحمید کی شخصیت متنوع ورثے کی حامل ہے۔ وہ ڈیجیٹل دور کی پیدا وار ہیں۔عالمی موسیقی کے اثرات کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی تالوں کی آمیزش نے دنیا بھر کے نوجوان سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔۷؍ اکتوبر کے بعد سینٹ لیونٹ فلسطین کی ثقافتی مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: شام: بشارالاسد کا خوف ختم، ملک میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی واپسی
سینٹ لیونٹ کا غزہ سے گہرا جذباتی تعلق ہے۔ ان کے والد کا غزہ میں ایک ہوٹل تھا دیرہ نام کا، جو ہوٹل نہ ہو کر ایک شناخت کی صورت اختیار کر گیا تھا۔اس وراثت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سینٹ لیونٹ نے اپنے ایک البم کا نام دیرہ رکھا۔اپنی موسیقی میں مروان نے غزہ کے متحرک ثقافتی منظر نامے میں جان ڈال دی۔ وہ نہ صرف موسیقار بلکہ ثقافتی ورثے کے محافظ بھی ہیں۔ ان کی موسیقی، لچک اورامید کے آفاقی موضوعات پربات کرتی ہے،جو ایک ایسے شہر میں گہرائی سے گونج رہی ہے جو اپنا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ وہ نہ صرف فلسطینی جدوجہد کے درد کو بیان کرتا ہے بلکہ خوشی اور امید بھی جو اس کےباوجود برقرار ہے۔سینٹ لیونٹ کا عروج ایسے وقت میں ہوا جب فلسطین کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔چاہے وہ ہالی ووڈ بیانیہ ہو، متعصب میڈیا کوریج ہو یا سوشل میں پلیٹ فارم پر الگورتھم سنسر شپ کے ذریعے۔ان حالات میں بھی ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم نے انہیں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔انہوں نے رکاوٹوں کو توڑ کر فلسطینی بیانیے کو لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔ ان کے گانے ترانوں کی صورت میں سڑکوں پر گائے جا رہے ہیں۔
مانچسٹر، اپنی صنعتی میراث اورابھرتی ہوئی شناخت کے ساتھ، سینٹ لیونٹ کے پیغام کیلئےایک موزوں پس منظر فراہم کرتا ہے۔یہ شہر ثقافت کا مرکز بن چکا ہے،مروان کے شو کے تمام ٹکٹ فروخت ہوچکے تھے،کنسرٹ ہال میں عرب نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ دیگراقوام کے افراد بھی موجود تھے۔ پورا ہجوم پر جوش تھا۔اسٹیج پر، وہ مسلسل فلسطین سے اپنی وابستگی اور انصاف اور شناخت کیلئے وسیع تر جدوجہد پر زور دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: ٹھنڈ سے اکڑ کرایک اور نو زائیدہ کی موت، جبکہ اسرائیلی مظالم بدستور جاری
اپنی موسیقی سے ہٹ کر، سینٹ لیونٹ اپنی ۲۰۴۸ء فاؤنڈیشن جیسے اقدامات کے ذریعے ایک میراث بنا رہےہیں ،جس کا مقصد نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل کے تصور کے تحت متحد کرنا ہے۔ سینٹ لیونٹ کی موسیقی مسلسل حوصلہ افزائی کرتی ہے، یہ ثابت کرتی ہے کہ اگرچہ فوجی طاقت فلسطین کو خاموش کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، ثقافتی مزاحمت کو روکا نہیں جا سکتا۔ اپنی موسیقی اور مروان عبدالحمید کے طور پر شناخت کے ذریعے، سینٹ لیونٹ نے خود کو اپنے ورثےکیلئے آواز اور نئی نسل کے رہبرکے طور پر پیش کیا ہے۔