• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سلطان پور میں مینکا گاندھی کی کامیابی آسان نہیں، اس بار بھی سخت مقابلے کا امکان

Updated: April 13, 2024, 12:07 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بی جے پی اِس مرتبہ کسی بھی طرح دہلی کے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کیلئے لوک سبھا کی ایک ایک سیٹ پر محنت کرنے اور اسے بچانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن سلطان پور میں اسے اپوزیشن اتحاد سے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔

It is not easy for Maneka Gandhi to win this time from Peli Bhait. Photo: INN
مینکا گاندھی کیلئے پیلی بھیت سے اس بار جیت پانا آسان نہیں ہے۔ تصویر : آئی این این

بی جے پی اِس مرتبہ کسی بھی طرح دہلی کے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کیلئے لوک سبھا کی ایک ایک سیٹ پر محنت کرنے اور اسے بچانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن سلطان پور میں اسے اپوزیشن اتحاد سے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہاں سے بی جے پی نے اپنی موجودہ رکن پارلیمان مینکا گاندھی ہی کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ سماجوادی پارٹی نے مقامی لیڈر ’بھیم نشاد‘ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ سلطان پور لوک سبھا کی ایک خاص بات یہ رہی ہے کہ بی جےپی لیڈر دیویندر بہادر رائے کے علاوہ کسی کو بھی یہاں سے دوسری مرتبہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ۱۹۹۶ء میں سلطان پور سے لوک سبھا پہنچنے والے دیویندر رائے بہادر دوسری مرتبہ شاید اسلئے الیکشن جیت گئے تھے کیونکہ ڈیڑھ سال بعد ہی ۱۹۹۸ء میں دوبارہ الیکشن ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف ’حکومت مخالف رجحان‘ بن نہیں پایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ مینکا گاندھی کے حامیوں میں سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آئین بدلنے کے الزام پر مودی نے صفائی پیش کی

ویسے بھی ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں جب بی جے پی نے ’پلوامہ لہر‘ پر سوار ہوکر بڑی کامیابی حاصل کی تھی، سلطان پور میں مینکا گاندھی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہیں سماجوادی پارٹی اوربی ایس پی کے متحدہ امیدوار چندر بھدر سنگھ پر محض ۱۵؍ ہزار ووٹوں کی ہی سبقت مل پائی تھی جبکہ اُس وقت کانگریس کے امیدوار کو تقریباً ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔ اس سے قبل سلطان پور سے ورون گاندھی بھی محض اس وجہ سے جیت پائے تھے کہ سیکولر ووٹ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی میں بری طرح تقسیم ہوگئے تھے۔ 
  ۲۰۲۴ء کیلئےبی ایس پی نے حالانکہ ابھی تک اپنا امیدوار طے نہیں کیا ہے لیکن اس مرتبہ صرف سلطان پور ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں یہی تاثر عام ہے کہ مقابلہ ’این ڈی اے بنام انڈیا‘ ہی ہوگا۔ ایسے میں بی ایس پی کا امیدوار کوئی بھی ہو، بہت زیادہ فرق پڑنے کی امید نہیں ہے۔ ویسے بھی بی ایس پی نے اترپردیش میں اپنی ساکھ کافی خراب کرلی ہے۔ دوسرے طبقات کی بات جانے دیں، اب دلت ووٹرس بھی اس پر اعتماد نہیں کر پا رہے ہیں۔ ’انڈیا‘ اتحاد کے امیدوار بھیم نشاد زمینی سطح کے ایک لیڈر ہیں اور ’نشاد‘ برادری کے ساتھ ہی پسماندہ طبقات میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ 
  ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں سلطان پور لوک سبھا حلقے میں آنے والی ۵؍ اسمبلی سیٹوں میں سے ۳؍ پر بی جے پی نے ایک اور پر سماجوادی نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن تمام ہی سیٹوں پر ہار جیت کا فیصلہ بہت معمولی ووٹوں سے ہوا تھا۔ پانچوں اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کو مجموعی طور پر ۴۲؍ لاکھ، سماجوادی پارٹی کو۳۷؍ لاکھ اور بی ایس پی کو ۲۰؍ لاکھ ووٹ ملے تھے۔ 
 کئی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ’انڈیا‘ اتحاد کے حامی سلطان پور لوک سبھا سیٹ کے تئیں کافی پُر امید ہیں۔ اس حلقے میں ۱۷ء۱۴؍ فیصد مسلم اور ۲۱ء۳؍ فیصدپسماندہ طبقات کے رائے دہندگان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK