صدرجمعیت علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور وقف بورڈ کے اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کو مسلمانوں کیلئے سرخ لکیر قرار دیا۔
EPAPER
Updated: August 09, 2024, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
صدرجمعیت علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور وقف بورڈ کے اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کو مسلمانوں کیلئے سرخ لکیر قرار دیا۔
صدرجمعیت علماء ہند مولانا ارشدمدنی نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کئے جانے پر سخت برہمی کااظہار کیا اور وقف بورڈ کے اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کو مسلمانوں کیلئے سرخ لکیر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت وقف بورڈ کی حیثیت ختم کرکے کلکٹر راج نافذ کرنا چاہتی ہے جسے ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان ہر خسارہ برداشت کرسکتاہے، لیکن شریعت میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا، اس کے باوجود ان ترامیم کے ذریعہ حکومت وقف کی جائیدادوں کی حیثیت اورنوعیت کو بدلنا چاہتی ہے، تاکہ ان پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ کلکٹر راج وجود میں آنے کے بعد وقف کی اراضی کے بارے میں وقف ٹربیونل کا فیصلہ آخری نہیں ہوگا بلکہ کلکٹر وقف کی ملکیت کا فیصلہ کرے گا۔ مولانا نے مطالبہ کیا کہ ترمیمی بل کو واپس لیا جائے۔ وقف بورڈ کے اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کے بغیر اگر کوئی خامی ہے تو اس کو مسلم تنظیموں اور ان کے نمائندوں سے صلاح ومشورہ کرکےدو ر کیا جائے۔
یہ بھی پڑھئے:ونیش کے معاملے پر بحث کے مطالبہ سے جگدیپ دھنکر ناراض، واک آئوٹ کر گئے
صدر جمعیۃ علماءہند نےاس کوآئین ہند کی دفعات ۱۵، ۱۴؍اور ۲۵؍کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے کہا کہ ترمیم سے عدالتی آزادی ختم ہوجائے گی، یہ سرار امتیاز پر مبنی ہے اور آئین کی بنیاد کیخلاف ہے۔ وقف مسلمانوں کے اہم مذہبی فریضے میں شامل ہے۔ وقف ٹریبونل ختم کرکے کلکٹر کے پاس اختیار ات دیئے جانے سے ہندوستان کی عدالتی آزادی ختم ہوجائے گی اور کلکٹر راج کی شروعات ہوگی۔ وقف سے حاصل ہونے والی رقم کو حکومت مسلمانو ں میں تقسیم کرے گی۔ انہوں نے وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کئے جانے کی تجویز پر سخت ناراضگی کا اظہار کیااور سوال کیا کہ دیگر مذاہب کے کے بورڈ اور عبادت گاہوں میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو رکن بنایا جاسکتا ہے؟ حکومت کا یہ فیصلہ مذہبی معاملے میں شدید مداخلت ہے جس کو ہر گزقبول نہیں کریں گے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ہندومسلم کا معاملہ نہیں، بلکہ ملک کے آئین، دستور اور سیکولر ازم کا معاملہ ہے، یہ بل ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔
مولا مدنی نے کہا کہ حکومت ایسے قوانین لارہی ہے جو صریح طور پرہمارے مذہبی امورمیں مداخلت ہے۔ آئین نے ہر شہری کو اپنے مذہبی امورپر عمل کرنے کا مکمل اختیار بھی دیاہے اورموجودہ حکومت آئین کے ذریعہ مسلمانوں کو دی گئی اس مذہبی آزادی کو چھین لینا چاہتی ہے۔ مسلمانوں نے جو وقف کیا اورجس مقصد کیلئے وقف کیا، کوئی بھی شخص واقف کے منشاکے خلاف اس کااستعمال نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ پراپرٹی وقف علی اللہ ہوتی ہیں۔
وقف کی ایک سال کی آمدنی
ریاستی وقف بورڈوں کے ذریعے سینٹرل وقف کونسل کو بھیجی گئی اطلاع کے مطابق وقف قانون ۱۹۹۵ءکی دفعہ ۷۲؍کے تحت ریاستی وقف بورڈوں کے ذریعےقانونی طورسے کیے گئے کنٹری بیوشن سے حاصل سالانہ آمدنی سال ۱۶-۲۰۱۵ءکے دوران کل ۹۸۵۰۶۷۸۲۹؍ روپے رہی۔ اس میں ہریانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کے ذریعے کیا گیاکنٹری بیوشن بھی شامل ہے۔(۱۸؍جولائی ۲۰۱۸ءکو لوک سبھا میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی)