غیر سرکاری تنظیم کا سنسنی خیز الزام، مجوزہ زرعی مارکیٹنگ پالیسی کا حوالہ دیا، کہا کہ ’’کسانوں کو کارپوریٹ کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی تیاری ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 12:15 PM IST | Agency | Bengaluru
غیر سرکاری تنظیم کا سنسنی خیز الزام، مجوزہ زرعی مارکیٹنگ پالیسی کا حوالہ دیا، کہا کہ ’’کسانوں کو کارپوریٹ کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی تیاری ہے۔‘‘
۷۰۰؍ سے زائد کسانوں کی قربانی اور ایک سال سے زائد احتجاج کے بعد مودی حکومت جو ۳؍ زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور ہوگئی تھی انہیں اب وہ زرعی مارکیٹنگ سے متعلق مجوزہ قومی پالیسی کی شکل میں عقبی دروازہ سے لارہی ہے۔ یہ سنسنی خیز الزام غیر سرکاری تنظیم ’’الائنس فار سسٹین ایبل اینڈ ہولسٹک ایگری کلچر‘‘ (آشا) نے کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق مرکزی حکومت کی ’ڈرافٹ نیشنل پالیسی فریم ورک آن ایگری کلچرل مارکیٹنگ‘ میں منسوخ شدہ زرعی قوانین کے اکثر التزامات کو شامل رکھا گیاہے جن میں سب سے اہم موجودہ زرعی بازاروں کو غیر منضبط کردینا ہے۔ تنظیم کے مطابق حکومت کے اس اقدام سے کسان اپنی فصل بیچنے کیلئے کارپوریٹ کمپنیوں کے رحم وکرم پر رہ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:زہرافشانی پر جسٹس یادو کو یوگی کی حمایت مگر سپریم کورٹ میں حاضر ہونا پڑ سکتاہے
زراعت اور کسانوں کی بہبود سے متعلق مرکزی وزارت کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے کنوینرسریندر سنگھ نے ۲۵؍ نومبر کو زرعی مارکیٹنگ کیلئے قومی پالیسی کا مسودہ جاری کیا ہے۔ اس پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے ’’آشا‘‘ سے وابستہ راجندر چودھری اور کویتا گروگانی نےنشاندہی کی ہے کہ اس مسودہ میں ایسی کئی تجاویز ہیں جن کے ذریعہ اُن زرعی قوانین کے التزامات کو نئے انداز میں متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے منسوخ کیا جاچکاہے۔
رضاکاروں نے ’’زرعی تجارت میں آسانی‘‘ کے عنوان سے مجوزہ پالیسی کی آٹھویں شق جو میں باتیں کہی گئی ہیں ان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسانوں کے مفادات کی قیمت پر قطعی نہیں ہونا چاہئے۔انہوں نے مزید نشاندہی کی ہے کہ شق ۱۰؍ میں ’’ٹھیکے پر کاشتکاری‘‘ کی وکالت کی گئی ہے جو منسوخ شدہ زرعی قوانین کے التزامات کی بحالی کی ہی کوشش ہے۔
’’آشا‘‘کے ذمہ داران نے الزام لگایا ہے کہ مودی حکومت نے پورے ملک کیلئے پالیسی وضع کرتے وقت ریاستوں سے رائے نہیں لی ہے۔ ۲۵؍ نومبر کو مذکورہ پالیسی کا مسودہ عام کیاگیا اوراس پر اعتراض کیلئے ۱۵؍ دنوں کا ہی وقت دیاگیا۔ براہ راست کسانوں کو متاثر کرنےوالی اس پالیسی پر جواب دینے کیلئے اتنا کم وقت دیئے جانے پر بھی اعتراض کیاگیاہے۔