• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مودی حکومت کی پالیسی تبدیل؛ انڈیا، مسلم اکثریتی ممالک کو حلال گوشت برآمد کریگا

Updated: October 02, 2024, 8:48 PM IST | New Delhi

حکومت کی نئی پالیسی کی ستم ظریفی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ملک میں حلال سرٹیفیکیشن کے متعلق برسوں سے جاری گرما گرم بحث اور تنازعات کے درمیان مودی حکومت نے حلال مصنوعات کی برآمد پر زور دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب ہندوستان ۱۵؍ مسلم اکثریتی ممالک کو حلال گوشت برآمد کرے گا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اپنی پالیسی میں اہم تبدیلی کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت نے ۱۶؍  اکتوبر سے ۱۵؍ مسلم اکثریتی ممالک کو حلال تصدیق شدہ گوشت اور گوشت کی مصنوعات برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں حلال مصنوعات پر تنازعات کے درمیان حکومت کے اس فیصلے نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں حلال سرٹیفیکیشن بحث کا موضوع بن گیا تھا اور مسلمانوں کو حلال مصنوعات پر اصرار کرنے پر تنقید یا تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اب ہندوستانی حکومت، بین الاقوامی سطح پر حلال مصنوعات کی برآمد کیلئے سہولیات فراہم کرنے جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: پوری دُنیا نے بیک زبان جنوبی لبنان پر اسرائیل کی فوج کشی کی مخالفت کی

نیوز ویب سائٹ کلیریون کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارین ٹریڈ (ڈی جی ایف ٹی) نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور حکومت کے مذکورہ فیصلہ سے جڑی نئے رہنما شرائط کی وضاحت کی ہے جن کے تحت حلال گوشت کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان مصنوعات کو انڈیا کنفارمٹی اسیسمنٹ اسکیم (آئی سی اے ایس) حلال سرٹیفیکیشن کی تعمیل کرنا ہوگی۔ یہ سرٹیفیکیشن متعدد مسلم اکثریتی ممالک کو برآمد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی نگرانی کوالٹی کونسل آف انڈیا کرتی ہے۔ ائی سی اے ایس حلال اسکیم کے تحت حکومت کے جاری کردہ حلال سرٹیفیکیشن کے نئے رہنما خطوط اسے یقینی بناتے ہیں کہ ہندوستانی برآمدات، اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیارات پر پورا اتریں۔

یہ بھی پڑھئے: ایران کا اسرائیل پر حملہ، ۱۸۰؍ میزائل داغے، اسرائیل کا جوابی حملے کا اعلان

حلال گوشت کی برآمدات کیلئے ڈی جی ایف ٹی کی ۱۵ ممالک کی فہرست میں بحرین، ایران، عراق، کویت، ملیشیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، اردن، عمان، فلپائن، قطر، سعودی عرب، سنگاپور، ترکی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ ان ممالک کی کثیر مسلم آبادی اور حلال تصدیق شدہ گوشت کی زیادہ مانگ کے پیش نظر، نئی پالیسی پر عمل آوری سے عالمی مارکیٹ میں ہندوستانی حلال مصنوعات کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس مانگ میں تیزی سے اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
حکومت کی نئی پالیسی کی ستم ظریفی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ملک میں حلال سرٹیفیکیشن سے متعلق برسوں کی گرما گرم بحث اور تنازعات کے درمیان حلال گوشت کی مصنوعات کی برآمد کی راہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں، مسلمانوں کو اکثر، حلال مصنوعات پر اصرار کرنے کیلئے بدنام یا مجرم قرار دیا جاتا تھا۔ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے حلال مصنوعات کے خلاف مہم چلائی، اسے معاشی جہاد قرار دیا اور الزام لگایا کہ حلال ذبیحہ کا عمل غیر انسانی ہے اور حلال پر اصرار کرکے مسلمان، غیر مسلم طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ ملتا ہے جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں بڑے پیمانے پر حلال مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ تاہم، سیاسی شور شرابہ کے باوجود، ہندوستان میں حلال صنعت بتدریج ترقی کر رہی ہے۔
مارکیٹ کے اندازوں کے مطابق، عالمی حلال خوراک مارکیٹ کی قدر ۲۰۲۱ء میں ۱ ہزار ۹۷۸ بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور ۲۰۲۷ء تک تقریباً دوگنا ہو کر ۳ ہزار ۹۰۷ بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ حلال مصنوعات صرف مسلمانوں نہیں بلکہ غیرمسم آبادی کے درمیان بھی مقبول ہیں جو حلال مصنوعات کی تیاری کے سخت معیارات کی وجہ سے انہیں صحت مند اور محفوظ مانتے ہیں۔
ہندوستانی حکومت کے حلال مصدقہ مصنوعات کو ۱۵ ممالک میں برآمد کرنے کے فیصلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت، بین الاقوامی حلال صنعت میں منافع بخش مواقع کی معترف ہے۔ یہ اقدام حکومت کی پالیسی میں عملی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن ملک کے سیاسی میدان میں متنازع موضوع ہوسکتا ہے لیکن عالمی سطح پر اس کی تجارتی اہمیت میں کوئی دو رائے نہیں۔ 
اس فیصلہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا فیصلہ متضاد ہے، کیونکہ وہ مالی منفعت کیلئے حلال گوشت کی برآمدات کو فروغ دینا چاہتی ہے جبکہ ملک میں مسلمانوں کو حلال مصنوعات کے استعمال پر درپیش امتیازی سلوک کے خلاف موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔
دہلی میں مقیم ایک سیاسی مبصر نے کہا، حکومت کا ملک میں انتہا پسند عناصر کو حلال مصنوعات کے خلاف پروپیگنڈے کی چھوٹ دینا اور دوسری طرف حلال گوشت کو بین الاقوامی سطح پر برآمد کرنے کی پالیسی بنانا، سراسر منافقت پر مبنی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK