میانمار کی جنتا حکومت نے سالانہ عام معافی کے تحت ۶۰۰۰؍ قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل فروری ۲۰۲۱ء کی بغاوت کے بعد سے حکومت نے ہزاروں مظاہرین اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے جس نے میانمار کی مختصر جمہوریت کو ختم کیا اور قوم کو انتشار میں مبتلا کر دیا۔
میانمار کے فوجی سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ ۔ تصویر: ایکس
میانمار کی جنگجو جنتا حکومت نےسنیچر کو اعلان کیا کہ وہ ملک کے یوم آزادی کے موقع پر سالانہ عام معافی کے حصے کے طور پر تقریباً ۶۰۰۰؍قیدیوں کو رہا کرے گی۔ حکمراں جنتا نے کہا کہ اس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معافی کا حکم دیا ہے۔حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ جب ملک برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے ۷۷؍سال مکمل کر رہا ہے، ۵۸۰۰؍ سے زیادہ قیدیوں کو جن میں ۱۸۰؍ غیر ملکی بھی شامل ہیں، کو رہا کیا جائے گا۔البتہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان قیدیوں کو کس جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔یا ان غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے ہے، جنہیں رہائی کے بعد ملک بدر کیا جائے گا۔جنتا نے یہ بھی اعلان کیا کہ جن ۱۴۴؍افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ان کی سزا کو ۱۵؍ سال میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: نیدرلینڈس: نازیوں کے ۴ لاکھ سے زائد مشتبہ ساتھیوں کی فہرست عام کردی گئی
واضح رہے کہ میانمار اکثر بدھ مذہب کے تہواروں کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرتا ہے۔ گزشتہ سال ۹۰۰۰؍ سے زائد قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا تھا۔دارالحکومت میں منعقد ہونے والی سالانہ یوم آزادی کی تقریب میں تقریباً ۵۰۰؍ سرکاری اور فوجی شرکاء نے شرکت کی۔ جنتا سربراہ جو اس تقریب میں موجود نہیں تھے، ان کی تقریر ڈپٹی آرمی چیف نے پڑھ کر سنائی۔تقریر میں درجنوں نسلی مسلح گروہوں کو متنبہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور سیاسی مسئلے کو پرامن طریقوں سے حل کریں۔انہوں نے التوا میں پڑے جمہوری انتخاب کرانے کے فوج کے وعدے کو دہرایا اور قومی اتحاد پر زور دیا۔