آسام کے پس منظر میں داخل کی گئی نئی عرضی پر ہیمنت بسوا شرما سرکار سے بھی جواب مانگا گیا، عرضی گزار نے قانون کو آئین کے منافی قرار دیا۔
EPAPER
Updated: April 20, 2024, 9:12 AM IST | Agency | New Delhi
آسام کے پس منظر میں داخل کی گئی نئی عرضی پر ہیمنت بسوا شرما سرکار سے بھی جواب مانگا گیا، عرضی گزار نے قانون کو آئین کے منافی قرار دیا۔
شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)کو چیلنج کرنے والی ایک اور پٹیشن پرجمعہ کو سپریم کورٹ نے مرکز اور آسام حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ مذہب کی بنیاد پر پڑوسی ملکوں کے دراندازوں کو شہریت دینےوالے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں پہلے ہی کئی عرضیاں زیر سماعت ہیں۔ ۱۹؍ مارچ کو مذکورہ عرضیوں پر مودی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قانون کے نفاذ پر روک لگانے سے انکار کردیاتھا۔
جمعہ کو جس نئی پٹیشن پر نوٹس جاری کیا گیاہے وہ گوہاٹی کے شہری ہیرین گوہین نے داخل کی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کی بنچ نے گوہین کے وکیل کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل کو بغور سننے کےبعد عرضی کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اسے پہلے سے زیر سماعت عرضیوں کے ساتھ نتھی کرنے کی ہدایت دی۔
نئی پٹیشن آسام کے پس منظر میں
آسام کے پس منظر میں داخل کئی گئی اس پٹیشن میں بھی مودی حکومت کے وضع کردہ شہریت ترمیمی ایکٹ کوآئین کے منافی قرار دیاگیا ہے۔ عرضی گزار نے دلیل دی ہے کہ یہ قانون نہ صرف مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتتا ہے بلکہ من مانا، غیر قانونی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ عرضی گزار نے آسام میں دراندازی کے حوالے سے داخل کی گئی پٹیشن میں نشاندہی کی ہے کہ بنگلہ دیش سے مسلسل غیر قانونی دراندازی کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی جو اکثریت میں تھی، وہ اپنی ہی زمین پر اقلیت بن گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اروند کیجریوال کی عرضی ،۴۸؍ مرتبہ گھر سے کھانا آیا، آم صرف ۳؍ مرتبہ بھیجا گیا
متنازع قانون بنیادی حقوق کے منافی
مودی حکومت کے ذریعہ حال ہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت دینے کیلئے بنائے گئے ضوابط کو عرضی گزار نے اپنے بنیادی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شہریت فراہم کرنے کے یہ ضوابط آئین میں آرٹیکل ۱۴(حق ِ مساوات)، ۱۵(مذہب، ذات پات اور نسل کی بنیاد پر امتیاز سے تحفظ کے حق)، ۱۹ (آزادی ٔ اظہار رائے)، ۲۱(جینے اور آزادی کے حق) کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
یہ فرقہ وارانہ نہیں غیر ملکی دراندازی کا معاملہ
ہیرین گوہین نے اپنی عرضی میں اس بات پر زوردیا ہے کہ ’’یہ ہندو -مسلمان کا معاملہ ہے، نہ مقامی افراد بمقابلہ بنگلہ دیشی درانداز وں کا معاملہ ہے۔ یہ غیر ملکی دراندازی کا مسئلہ ہے، دراندازی کرنے والے مسلمان ہوں کہ ہندو، یہ لوگ اس زمین پر قابض ہورہے ہیں جو صدیوں سے آسام کے مقامی افراد کی رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہندوستانیوں اور غیر ہندوستانیوں / غیرملکیوں کے درمیان کا معاملہ ہے اوراس لئے پورے ملک کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ‘‘عرضی گزار نے نشاندہی کی ہے کہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق آسام کی آبادی ۳ء۲۱؍ کروڑ تھی جس میں ۱ء۳۴؍ کروڑ مقامی آسامی تھے۔ان میں آسامی مسلمان اور بوڈو، رابھا اور کربی جیسے مختلف قبائل بھی شامل ہیں۔ان کے علاوہ چائے سے جڑے قبائل کے لوگوں کی تعداد ۴۸؍ لاکھ ہے۔ یہ مجموعی طور پر ۱ء۸۲؍ کروڑ ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ اکثریت بنگالی بولنےوالے ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہے۔‘‘ اس کے ذریعہ انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مقامی آبادی اقلیت میں آرہی ہے۔