• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پاکستان: کیمپس میں مبینہ عصمت دری، پولیس نے طلبہ مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی

Updated: October 17, 2024, 10:05 PM IST | Lahore

گزشتہ دن لاہور، پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی گئی جس کے بعد طلبہ میں غصہ پھوٹ پڑا۔ گزشتہ دن زبردست احتجاج کے بعد آج طلبہ نے کالج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور شہر کی ایک اہم سڑک کو بلاک کردیا۔ پولیس نے طلبہ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کیا۔

A scene of a student protest on a university campus. Photo: PTI
یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ کے احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی

پاکستانی پولیس نے کیمپس میں مبینہ عصمت دری پر طلبہ میں غم وغصہ پھوٹ پڑنے پر آج کالج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کرنے والے طلبہ مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے پھینکے اور لاٹھی چارج کیا۔ لاہور میں مبینہ زیادتی کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سے کالج کیمپس میں کشیدگی عروج پر ہے اور اب تک چار شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد عام ہے لیکن بدنامی کی وجہ سے اسے کم رپورٹ کیا جاتا ہے، اور اس معاملے پر احتجاج شاذ و نادر ہی ہوا ہے۔ جمعرات کو تشدد اس وقت شروع ہوا جب صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں سیکڑوں طلبہ نے ایک کیمپس کے باہر مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فرنیچر کو جلا دیا اور کالج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کرنے سے پہلے شہر کی ایک اہم سڑک کو بلاک کر دیا، جس سے ٹریفک میں خلل ڈالا۔ پولیس اہلکار محمد افضل نے کہا کہ پولیس نے جوابی لاٹھیاں برسائیں اور انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس فائر کی۔

ایک بیان میں، پولیس نے کہا کہ انہوں نے امن میں خلل ڈالنے کے الزام میں ۲۵۰؍ افراد کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر طلبہ تھے۔ صوبہ پنجاب میں بھی گجرات میں بدھ کو طلبہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ایک سکیوریٹی گارڈ ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے موت کے سلسلے میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بھی گرفتار کیا جس پر مبینہ عصمت دری کے بارے میں سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے اور طالبات کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں، لاہور میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کالج کے دو درجن سے زائد طالب علم زخمی ہو گئے تھے، جب انہوں نے متاثرہ لڑکی کیلئے انصاف کا مطالبہ کرنے کیلئے ریلی نکالی تھی، جس پر ان کا الزام تھا کہ پنجاب گروپ آف کالجز کے کیمپس میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: لکھنؤ: گرین وے پبلک اسکول میں ۱۲؍سالہ مسلم طالب علم کو بری طرح زدو کوب کیا گیا

صوبے کے وزیر اعلیٰ اور کالج انتظامیہ سمیت حکام نے اس بات کی تردید کی کہ حملہ ہوا تھا، جیسا کہ نوجوان خاتون کے والدین نے کہا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ۱۹۸۴ء سے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد ہے۔ اس کے بعد سے کئی اپوزیشن جماعتوں کے یوتھ ونگ نے حمایت کا اظہار کیا ہے۔جمعرات کو، جماعت اسلامی کی اپوزیشن جماعت کے یوتھ ونگ کے سربراہ عثمان غنی نے طلبہ یونینوں پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے تشدد کے بغیر معاملے کو حل کرنے میں مدد کی ہو۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کیسے جواب دیتے ہیں کہ حملہ آور گرفتار کیے بغیر فرار نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: عدالت نےمعزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف گرفتاری وارنٹ جار ی کیا

حقوق گروپ عورت فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والی حسنہ چیمہ نے کہا کہ نہ تو پاکستانی پولیس اور نہ ہی میڈیا کو ایسے حساس معاملات کو سنبھالنے کی تربیت دی گئی تھی۔چیمہ نے کہا کہ وہ معاملات کو حل کرنے کے بجائے اس خراب کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ۲۰۲۳ء میں پاکستان میں عمصمت دری کے ۷؍ ہزار ۱۰؍ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے تقریباً ۹۵؍ فیصد پنجاب میں ہوئے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں سماجی بدنامی کی وجہ سے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کم رپورٹنگ کی وجہ سے معاملات کی اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘ 

واضح رہے کہ اس ہفتے کا احتجاج ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد سامنے آیا ہے جب ایک خاتون نے کہا تھا کہ جنوبی سندھ صوبے میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران ڈیوٹی کے دوران اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ اس معاملے میں پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ تاہم، خاتون کے شوہر نے اس مبینہ حملے کے بعد اسے گھر سے یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیا گیا کہ اس نے خاندان کا نام خراب کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK