فلسطینی صحافیوں کے ذریعے بلائی گئی پریس کانفرنس میں فلسطینی صحافیوں نے بین الاقوامی میڈیا پر شیدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بھی یوکرین کےشہری ہوتے، یا نیلی آنکھوں ، بھورے بال والے کسی اور ملک کے سفید فام شہری ہوتے تو ہمارے لئے بھی آواز اٹھائی جاتی۔
فلسطینی صحافی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
جمعرات کو فلسطینی صحافیوں کے زیر اہتمام غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ انہیں بین الاقوامی میڈیا نے مایوس کیا ہے۔بین الاقوامی برادری سے انگریزی میں خطاب کرنے والے صحافی ابوبکر عابد نے کہا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ مزید کتنے صحافیوں کو قتل کئےجانے کے بعد آپ واقعی کوئی کارروائی کر سکیں اور ہمارے خلاف اسرائیل کی بے خوفی کو روک سکیں۔‘‘ عابد نے کہا کہ ’’ ہم صحافی ہیں، ہم فلسطینی صحافی ہیں،اور ہمیں بین الاقوامی میڈیا نے نظر انداز کر دیا ہے، خصوصاً بین الاقوامی میڈیا تنطیموں نے۔‘‘
پریس کانفرنس دیر البلاح میں الاقصی شہداءاسپتال کے باہر منعقد ہوئی۔واضح رہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے نسل کشی کے دوران ۲۰۰؍ سے زائد صحافیوں اور میڈیااہلکاروں کو قتل کیا ہے۔جنگ کے دوران بین الاقوامی قوانین کے تحت انہیں تحفظ ملنا چاہئے اس کے باوجود محصور غزہ میں نامہ نگاری کرنے والے فلسطینی صحافیوں کو قصداً حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔عابد نے بتایا کہ ہم اس نسل کشی کی انتھک، جامع نامہ نگاری کر رہے ہیں۔اور تمام واقعات کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں اپنے پیاروں، ساتھیوں، دوستوں اور خاندان کے اراکین پر آنسو بہاتے ہوئے دیکھا ہے۔آپ نے ہمیں ہر ممکن طریقے سے قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ہمارے ٹکڑے کئے گئے، ہمیں جلایا گیا، اور اب سردی سے اکڑ کر مارے جا رہے ہیں۔تو پھر آپ حرکت میں آنے کیلئے، اور ہم پر مسلط جہنم کو روکنے کیلئے ہمیں مزید کن طریقوں سے مرتے دیکھنا چاہتے ہیں،۔ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اسے بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ہمارے جسموں کو دیکھو کیسے نحیف ہو چکے ہیں، لیکن ہم پھر بھی رکے نہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: نیتن یاہو کی گرفتاری وارنٹ کے احتجاج کے طور پر آئی سی سی کے خلاف بل منظور
عابد نے اپنی پریس واسکٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ابھی ہم نے جو پریس واسکٹ پہن رکھی ہے وہ بھی ہمیں ہدف کے طور پر نشان زد کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر ہم بھی یوکرین کے شہری ہوتے، یا سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے سفید فام کسی اور ملک کی شہریت کے حامل ہوتے تو ہمارے لئے آواز اٹھائی جاتی، لیکن چونکہ ہم فلسطینی ہیں، لہٰذا مرنا یا معذور ہو نا ہی ہمارا مقدر ہے۔ ‘‘
عابد نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم صرف اپنی نسل کشی کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔نسل کشی کے ڈیڑھ سال بعد ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، کیونکہ ہم بھی دیگر اقوام عالم کے صحافیوں کی طرح ایک صحافی، نامہ نگار اور میڈیا اہلکار ہیں، چاہے ہمارا رنگ، نسل یا شہریت مختلف ہو، صحافت کوئی جرم نہیں ہے، صحافی ہونا ہدف ہونا نہیں ہے۔‘‘