نئی پالیسی سے سڑکوں پرگاڑیاں کم ہوجائیں گی لیکن بدعنوانی بڑھنے کا اندیشہ ۔شہریوں نے کہا: پارکنگ صرف کاغذ پرنہیں ہونی چاہئے
EPAPER
Updated: January 11, 2025, 6:00 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
نئی پالیسی سے سڑکوں پرگاڑیاں کم ہوجائیں گی لیکن بدعنوانی بڑھنے کا اندیشہ ۔شہریوں نے کہا: پارکنگ صرف کاغذ پرنہیں ہونی چاہئے
ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی تجویز پر جلد ہی چار پہیہ گاڑی خریدنے والے کے پاس پارکنگ کی جگہ ہونا لازمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم جگہ کی قلت کیلئے بدنام ممبئی کی کئی عمارتوں میں پارکنگ لاٹ دیگر کاموں کیلئے استعمال میں لانے کیلئے فروخت کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پارکنگ کی جگہ ہی دستیاب نہیں ہوتی۔ اس تعلق سے جب انقلاب نے شہریوں سے گفتگو کی تو ان کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں کیونکہ اس شرط کی وجہ سے بدعنوانی اور سرکاری افسران کے ساتھ بلڈروں کی ملی بھگت سے من مانی کے نئے راستے زیادہ کھل سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس نے ریاست مہاراشٹر میں ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت وہ ہر محکمہ کے سربراہوں اور افسران کے ساتھ میٹنگ کرکے اس محکمے کے آئندہ ۱۰۰؍ دن کے کاموں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اسی میٹنگ کے دوران محکمہ ٹرانسپورٹ کے کمشنر وویک بھیمنور نے تجویز پیش کی کہ ممبئی سمیت ریاست کے دیگر اضلاع میں فضائی آلودگی پر قابو پانے اور راستوں پر کھڑی گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے یہ شرط عائد کردی جائے کہ جو بھی نئی کار خریدنا چاہتے ہیں، پہلے انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ان کے پاس اس کار کو کھڑی کرنے کیلئے جگہ دستیاب ہے۔ مطلب یہ کہ نئی کار خریدنے کیلئے خریدار کو گاڑی رجسٹریشن کراتے وقت ’سرٹیفائیڈ پارکنگ ایریا‘ (سی پی اے) پیش کرنا ہوگا۔ یہ سرٹیفکیٹ بی ایم سی جاری کرتی ہے اور ٹریفک ڈپارٹمنٹ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اطلاع کے مطابق وزیر اعلیٰ نے اس تجویز کو منظوری دے دی ہے لیکن اس میں مناسب تبدیلیاں اور ضروری کارروائیاں مکمل کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئےؒ کلیان: ایک کروڑ ۴۳؍ لاکھ روپے سے زائد کا مسروقہ سامان ان کے مالکان کو لوٹایا گیا
جائیداد و املاک کے کاروبار سے وابستہ کاشف انصاری جو لکی کمپائونڈ میں رہائش پذیر ہیں، سے جب اس نمائندے نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’اس کے فائدے بھی نظر آرہے ہیں اور نقصانات بھی۔ اگر سڑکوں سے گاڑیاں کم ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ٹریفک کم ہوگی، ایندھن کی بچت ہوگی، فضائی آلودگی پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا لیکن عام تجربہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ’ریئل اسٹیٹ‘ کے تعلق سے حکومت کی کئی گائیڈ لائن اور شرائط ہیں جن پر عمل نہیں ہوتا اس لئے خدشہ ہے کہ اس نئی شرط کو بھی صرف کاغذات پر پورا کردیا جائے گا اور حقیقتاً حالات میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں آئیں گی۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بی ایم سی نے کئی نئی عمارتوں میں پارکنگ کی سہولت مہیا کروائی ہے، ہوسکتا ہے اس منصوبہ سے ان خالی پڑی جگہوں کو استعمال میں لانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: بنا ٹکٹ مسافروں سے جرمانہ کے ساتھ ۵؍ فیصد جی ایس ٹی وصول کرنے کی تجویز
مدنپورہ کے دکاندار امجد خان نے کہا کہ ’’ہمارے علاقے میں کئی نئے ٹاور بن گئے ہیں جن میں پارکنگ کی جگہ تو ہے لیکن کہیں پارکنگ کی لفٹ شروع نہیں کی گئی ہے اس لئے گاڑی اوپر جا ہی نہیں سکتی تو کسی نے پارکنگ کی جگہ کو کسی کمرشیل کام کیلئے فروخت کردیا ہے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’کھلی بات ہے کہ لاکھوں روپے میں پارکنگ کی جگہ فروخت ہوتی ہے اور اب اسے لازمی قرار دینے کی وجہ سے جن عمارتوں میں گاڑیوں کیلئے پارکنگ لاٹ سرکاری شرائط کے مطابق دستیاب ہے، ان کی قیمت بڑھ جائے گی۔ میرے خیال سے یہ نئی شرط نافذ کرنے سے قبل حکومت کو نئے تعمیر شدہ ٹاوروں کا آڈٹ کروانا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ ہر عمارت میں گاڑی پارکنگ کی جگہ فراہم کرنے کی شرط پوری کی جارہی ہے یا صرف آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر کوئی نئی پالیسی متعارف کرائی جانی چاہئے۔ ‘‘