• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پتانجلی: لائسنس معطل کردی گئی ۱۴؍ مصنوعات کی فروخت اور اشتہارات پر بھی پابندی

Updated: July 09, 2024, 9:42 PM IST | New Delhi

آج بابا رام دیو کی کمپنی پتانجلی آیوروید نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کمپنی نے اُن ۱۴؍ مصنوعات کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے جن کے لائسنس معطل کردیئے گئے تھے۔ ساتھ ہی، ان ۱۴؍ مصنوعات کے اشتہارات ہر پلیٹ فارم، بشمول سوشل میڈیا، ہٹا لئے گئے ہیں۔ معاملے کی اگلی سماعت ۳۰؍ جولائی کو ہوگی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بابا رام دیو کی پتانجلی آیوروید نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے اپنی اُن ۱۴؍ مصنوعات کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے جن کے مینوفیکچرنگ لائسنس کو اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھاریٹی برائے آیورویدک اور یونانی خدمات نے اپریل میں معطل کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ ۲۹؍ اپریل کو اتراکھنڈ حکومت کے ادارے نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ لائسنس معطل کر دیا گیا ہے کیونکہ پتانجلی آیوروید نے ۱۹۴۵ء کے ڈرگس اینڈ کاسمیٹک قوانین کی بار بار خلاف ورزی کی تھی۔جن ۱۴؍ ادویات پر پابندی لگائی گئی وہ ہیں: سوساری گولڈ، سوساری وتی، برونچوم، سوساری پرواہی، سواساری اولیہ، مکتا وتی ایکسٹرا پاور، لیپیڈم، بی پی گرٹ، مدھوگرت، مدھوناشینی وتی ایکسٹرا پاور، لیوامرت ایڈوانس، لیووگریٹ، آئی گریٹ گولڈ اور پتانجلی گراؤ۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: انسانی اسمگلنگ کے الزام میں ۴؍ ہند نژاد افراد گرفتار

منگل کو پتانجلی آیوروید نے جسٹس ہیما کوہلی اور سندیپ مہتا کی بنچ کو بتایا کہ اس نے ۵؍ ہزار ۶۰۶؍ فرنچائز اسٹورز کو ان مصنوعات کو واپس لینے کی ہدایت دی ہے۔ کمپنی نے یہ بھی کہا کہ میڈیا پلیٹ فارمز کو ان ۱۴؍ مصنوعات کے اشتہارات واپس لینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ عدالت نے پتانجلی سے کہا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر حلف نامہ داخل کرے کہ کیا سوشل میڈیا پر ان مصنوعات کے اشتہارات واپس لئے گئے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے کی اگلی سماعت ۳۰؍ جولائی کو ہوگی۔
خیال رہے کہ بنچ انڈین میڈیکل اسوسی ایشن کی طرف سے پتانجلی آیوروید کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں کمپنی پر جدید ادویات اور کووڈ۔۱۹؍ ویکسین مہم کے خلاف ’’لاپروائی سے مہم‘‘ چلانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK