معروف آرٹسٹ ،متعدد زبانوں سے واقف اور اُردو کے شیدائی پرکاش پاتھرے سے انقلاب کی خصوصی گفتگو۔
EPAPER
Updated: May 12, 2024, 10:48 AM IST | Saadat Khan | Mumbai
معروف آرٹسٹ ،متعدد زبانوں سے واقف اور اُردو کے شیدائی پرکاش پاتھرے سے انقلاب کی خصوصی گفتگو۔
معروف آرٹسٹ، متعدد زبانو ں، انگریزی، مراٹھی، اُردو اور فارسی پر دسترس رکھنےوالے پرکاش پاتھرے گزشتہ روز دفتر انقلاب تشریف لائے تھے۔ وہ اردو زبان و ادب کے شیدائی ہیں۔ اُردو کی ترقی اور ترویج سے متعلق ان سےہونےوالی طویل گفتگو سیرحاصل رہی۔ ملاقات کےدوران انہوں نے اُردو زبان پڑھنے لکھنے کےعلاوہ اس کی شیرینی پر اپنے تاثرات بھی دئیے۔ قارئین کی خدمت میں اردو کے اس بے لوث سپاہی کی اُردوزبان سے محبت اورچاہت کی رودادپیش کی جارہی ہے۔
پرکاش پاتھرے کی مادری زبان حالانکہ مراٹھی ہے لیکن وہ مراٹھی سے کہیں بہتر انگریزی جانتے ہیں۔ انگریزی کےعلاوہ اُردو اورفارسی سےبھی انہیں خاص رغبت ہے۔ اُردو کے بڑے شیدائی ہیں۔ اُردو زبان سے محبت کی وجہ سے انہوں نے اُردو سیکھی، اتناہی نہیں بلکہ اپنے والداور اہلیہ کو بھی سکھائی۔ آج کے دور میں اُردوتو جانے دیجئےکسی بھی زبان کوسیکھنےاور اہل خانہ کو سکھانےکاجذبہ معدوم ہوچکا ہےلیکن پرکاش پاتھرے کو اُردو سےاپنی شناخت پر ناز ہے۔
پرکاش صاحب اشتہاری شعبے سے تعلق رکھتےہیں مگر ان کو آر ٹ، پینٹنگز اور خوش خطی کا بھی شوق ہے۔ ان کی اُردو دوستی کا اندازہ اس سے بات بھی لگایاجاسکتاہےکہ انہوں نے صرف زبان ہی نہیں نہیں سیکھی بلکہاسے خوش خط لکھنے کی تربیت بھی حاصل کی۔ بھنڈی بازار اُردو فیسٹیول میں لگائی گئی قدآدم ہورڈنگز اس کی مثال ہیں جس میں انہوں نے خطاطی کا عمدہ نمونہ پیش کیاتھا۔ اسی طرح ناگپاڑہ کے غالب سیلفی پوائنٹ پر مرزاغالبؔ کے اشعار کی کتابت بھی ان کی فنی صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کووی شیلڈ ویکسین کے مضر اثرات کیخلاف زبردست احتجاج
پرکاش پاتھرے کا روزنامہ انقلاب سے بھی بے حد قریبی تعلق ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ ممبئی سے پونے منتقل ہوئے تووہاں انہیں انقلاب نہیں مل رہاتھا۔ بڑی تگ ودو کےبعد ایک صاحب کےذریعے انہیں انقلاب ملنے لگا جس سے وہ اب کافی مطمئن ہیں۔ اب پرکاش پاتھرے کے علاوہ ان کی بیگم، پونےمیں بھی پابندی سے انقلاب کامطالعہ کرتی ہیں۔ پرکاش پاتھرے کاخاندان تعلیم یافتہ ہے۔ گھر میں لائبریری کامعقول انتظام تھا جس میں مراٹھی کے علاوہ انگریزی، گجراتی اور دیگر زبانوں کی سیکڑوں کتابیں موجود تھیں۔ علمی ماحول سے انہیں اُردو سیکھنے کی ترغیب ملی۔ شروعات انہوں نے بھی حروف تہجی سے کی تھی لیکن یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۲۰؍ سال بعد دوبارہ اُردو سیکھنے کا جنون سوار ہوا۔ اس مرتبہ انہوں نے نالا سوپارہ کے ایک اُردو استاد انظار الحق سید کی رہنمائی میں اُردو سیکھنا شروع کیا۔ اُردو سیکھنےکےبعد انہوں نے پہلے اپنی بہن کو اُردو سکھانےکی کوشش کی۔ اس بات کا علم ان کے والد کو ہوا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اُردو سکھائو۔ والدکی دلچسپی پر پہلے انہیں اور بعد میں اپنی اہلیہ کو اُردو سکھائی۔ ان کی بہن نے واجبی سی اردو سیکھ لی لیکن والد اور اہلیہ نے اردو لکھنے اور روانی سے پڑھنے کی حد تک یہ زبان سیکھی ہے۔ پرکاش پاتھرے کے بقول’’ اُردو سیکھنے کےبعد میں اُردو زبان کی تاریخ اور اہمیت کاگہرائی سے مطالعہ کرنےلگا۔ ‘‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آرٹ اورپینٹنگ کا تجربہ ہونے سے اُردو خوش خطی سیکھنےمیں بھی آسانی ہوئی۔ اُردو خوش خطی سے متعلق اپنا ایک تجربہ بیان کرتےہوئے انہوں نے بتایاکہ ’’ایک مرتبہ نہرو سینٹر(ورلی) میں میرے فن پاروں کی نمائش تھی جس میں ایک پینٹنگ میں ’ب‘ بالکل منفرد انداز میں لکھا ہوا تھاجسے دیکھ کر بی ایم سی اسکول کی ایک آرٹ ٹیچر بے ساختہ روپڑیں۔ پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ اپنی پوری سروس کے دوران میں نے اس طرح سے اور اتنی عمدگی کے ساتھ ’ب‘ لکھا ہوا نہیں دیکھا اور نہ میں کبھی ایسا لکھ سکی۔ اُردو زبان کے تعلق سے ایک سوال پوچھنے پر پرکاش پاتھرے نے کہا کہ ’’میں نہیں جانتاکہ مجھے اُردو کتنی آتی ہے لیکن یہ ضرور ہےکہ جسے اُردو کا ’الف ‘نہ آتاہومیں اسے ۱۰؍ دنوں میں انقلاب کی سرخیاں پڑھنے کے لائق ضرور بناسکتاہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اُردو زبان کے تلفظ کےمعاملہ میں بڑی غلطیاں سرزد ہورہی ہیں، جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ نیوزریڈر’ جلیل‘ کو ذلیل اور’ ظہیر‘ کو ’جاہر‘ بول رہےہیں، جس سے نام کامفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ ‘‘