فائرنگ میں کم از کم ۴؍ مظاہرین کی موت مگر پیچھے نہ ہٹنے کا عزم، کئی فوجی بھی ہلاک، بشریٰ بی بی کا ڈی چوک پر خطاب، پارٹی کارکنوں کو للکارا کہ عمران خان کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
EPAPER
Updated: November 27, 2024, 11:35 AM IST | Agency | Islamabad
فائرنگ میں کم از کم ۴؍ مظاہرین کی موت مگر پیچھے نہ ہٹنے کا عزم، کئی فوجی بھی ہلاک، بشریٰ بی بی کا ڈی چوک پر خطاب، پارٹی کارکنوں کو للکارا کہ عمران خان کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
عمران خان اوران کی پارٹی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے تمام بے قصور محروسین کی رہائی کیلئے پاکستان میں جاری احتجاج منگل کو پُر تشدد ہوگیا۔ ایک طرف جہاں فوج اور پولیس کی فائرنگ میں کم از کم ۶؍ مظاہرین ہلاک ہوگئے وہیں مظاہرین نے گاڑی سے کچل کر کم از کم ۴؍ فوجی جوانوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا۔ ملک کے مختلف صوبوں سے مارچ کرتے ہوئے کراچی پہنچنے والے مظاہرین پر قابو پانا حکومت کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہاہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئےاسلام آباد میں نہ صرف یہ کہ فوج تعینات کردی گئی ہے بلکہ دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کردیا گیاہے۔
فوج اور مظاہرین میں آمنے سامنے کی لڑائی
منگل کو اسلام آباد میں سیکوریٹی اہلکاروں اور مظاہرین میں آمنے سامنے کی لڑائی دیکھنے کو ملی۔ سری نگر ہائی وے پر مظاہرہ میں شامل چند شرپسندوں نے فوجی اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی جس سے ۴؍ جوان جاں بحق اور ۵؍ زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں پولیس کے۲؍ جوان بھی شامل ہیں۔ آمنے سامنے کی لڑائی میں جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے ہیں وہیں اس خبر کے لکھے جانے تک کم از کم ۱۰۰؍ سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں ۔ اس بیچ فوج نے ڈی چوک کا کنٹرول پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔
اہم عمارتوں پر بھی فوج تعینات
ایسے وقت میں جبکہ مظاہرین کے تیور سخت ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے قائد (عمران خان)کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں، اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس سمیت تمام اہم عمارتوں پر فوج تعینات کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین کا قافلہ پیر کی رات ڈی چوک پہنچ گیا۔ مظاہرین کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان کے قافلہ کے اسلام آباد میں اپنی منزل ڈی چوک تک پہنچ جانے سے انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:جب شہری کسی قانون کو چیلنج کرتے ہیں تو وہ جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں: چیف جسٹس
مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کی کوشش
بتایا جارہاہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف عمران خان سے ملاقات کرکے بشریٰ بی بی سے فون پر ان کی بات کروانے کی کوشش کریں گی۔ اس کا مقصد پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے احتجاج کو سنگجانی علاقے پر دھرنے کیلئے رضا مند کرنا ہے۔ بشریٰ بی بی پیر سے سنگجانی کے بجائے ڈی چوک جانے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اور علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا ہے کہ ’’عمران خان کا جب تک حکم نہیں آتاہم نے واپس نہیں جائیں گے۔ ‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ’’ حکومت نے فسطائیت شروع کر رکھی ہے لیکن ہمیں پرامن دھرنا دینا ہے۔ ‘‘
پی ٹی آئی لاشیں گروانا چاہتی ہے: حکومت
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے مظاہرین کو ’’تخریبی عناصر‘‘قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ لوگ کوئی انقلاب نہیں چاہتے بلکہ قتل وغارتگری کے متمنی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ پرامن احتجاج نہیں ہے، یہ انتہا پسندی ہے۔ ‘‘ ان ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے وزیراطلاعات نےبھی مظاہرہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پی ٹی آئی قیادت لاشیں گرانا چاہتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ مگر حکومت ایسا نہیں ہونے دے گی اور گولی کا جواب گولی سے نہیں دے گی۔ ‘‘
مظاہرین سے امن اور حکومت سے انسانی اور بنیادی حقوق کے احترام کی اپیل
پاکستان میں عمران خان کی پارٹی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے احتجاج کے پیش نظر امریکہ نے مظاہرین سے پُر امن رہنے اور حکومت سے بنیادی اور انسانی حقوق کے احترام کی اپیل کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق’’ ہم مظاہرین سے تشدد سے باز رہنے اور پرامن احتجاج کی اپیل کرتے ہیں ساتھ ہی پاکستانی حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کریں۔ ‘‘
ایک صحافی کے اس سوال پر کہ پاکستان میں خودکش بم دھماکے ہو رہے ہیں، فرقہ وارانہ جھڑپیں اور سیاسی افراتفری کی صورت حال ہے اور اس بیچ ہزاروں افراد اپنے سیاسی لیڈر کی رہائی کیلئے مظاہرہ کے دوران پولیس سے ٹکرا رہے ہیں، اس بحران پر آپ کیا کہتے ہیں، میتھیو ملر نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستانی آئین کا احترام اور قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہاکہ’’ہم پاکستان اور دنیا بھر میں، آزادائ اظہار اور پرامن اجتماع کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘‘