ملک میں پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بیز) نے مالی سال۲۴۔۲۰۲۳ء میں اپنا سب سے زیادہ مجموعی خالص منافع۱ء۴۱؍ لاکھ کروڑ روپے ریکارڈ کر کے ایک شاندار سنگ میل حاصل کیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 6:10 PM IST | Agency | New Delhi
ملک میں پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بیز) نے مالی سال۲۴۔۲۰۲۳ء میں اپنا سب سے زیادہ مجموعی خالص منافع۱ء۴۱؍ لاکھ کروڑ روپے ریکارڈ کر کے ایک شاندار سنگ میل حاصل کیا ہے۔
ملک میں پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بیز) نے مالی سال۲۴۔۲۰۲۳ء میں اپنا سب سے زیادہ مجموعی خالص منافع۴۱ء۱؍ لاکھ کروڑ روپے ریکارڈ کر کے ایک شاندار سنگ میل حاصل کیا ہے۔ یہ اہم کامیابی اس شعبے کی مضبوط بحالی کو ظاہر کرتی ہے، جس کی بنیاد اثاثوں کے معیار میں نمایاں بہتری پر ہے۔ مجموعی نان پرفارمنگ اثاثوں(جی این پی اے) کا تناسب تیزی سے کم ہو کر ستمبر ۲۰۲۴ء میں۱۲ء۳؍فیصد تک آ گیا۔ اپنے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے، پی ایس بیز نے مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء کی پہلی ششماہی میں ۸۵۵۲۰۶۰۰۰؍ کروڑ روپے کا خالص منافع حاصل کیا۔
اپنی شاندار کارکردگی کے علاوہ، پی ایس بی نے شیئر ہولڈرس کو بھی خاطر خواہ فوائد فراہم کئے ہیں اور گزشتہ ۳؍ برسوں میں۶۱۹۶۴؍ کروڑ روپے کا کل فائدہ ادا کیا ہے۔ یہ شاندار مالیاتی ترقی اس شعبے کی آپریشنل کارکردگی، اثاثوں کے معیار میں بہتری، اور مضبوط سرمایہ بنیاد کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: آر بی آئی نے اضافی زرعی قرض کی حد بڑھا کر ۲؍ لاکھ روپے کر دی
مالی کامیابیوں سے آگے بڑھتے ہوئے، ان بینکوں نے مالی شمولیت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اٹل پنشن یوجنا اور پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا جیسی اہم سرکاری اسکیم کو نافذ کیا ہے، جن کی بدولت معاشرے کے محروم طبقات تک بنیادی فوائد پہنچانے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کی حکومت نے اصلاحات، فلاحی اقدامات، اور مضبوط پالیسیوں کے ذریعے اس شعبے کی بھرپور حمایت کی ہے، جس سے بینکنگ نظام میں مضبوطی، شفافیت، استحکام اور شمولیت کو فروغ ملا ہے۔
پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بیز) کے مجموعی نان پرفارمنگ اثاثوں (جی این پی اے)کے تناسب میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے، جو ستمبر ۲۰۲۴ء میں۳ء۱۲؍ فیصد تک کم ہو گیا، جو مارچ ۲۰۱۸ء میں۵۸ء۱۴؍ فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا۔ اس قابل ذکر کمی نے بینکنگ نظام میں دباؤ کو دور کرنے کے لیے کیے گئے ہدفی اقدامات کی کامیابی کو ظاہر کیا ہے۔
۲۰۱۵ء میں ایک اہم موڑ آیا جب ریزرو بینک آف انڈیا نے اثاثوں کے معیار کا جائزہ (اے کیو آر) شروع کیا۔ اس مشق کا مقصد بینکوں میں پوشیدہ دباؤ کی نشاندہی اور اس کا ازالہ کرنا تھا، جس کے تحت این پی اے کی شفاف شناخت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس عمل کے دوران پہلے سے بحال کئے گئے قرض کی این پی اے کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کی گئی، جس سے رپورٹ شدہ این پی اے میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران بڑھتے ہوئے پروویژننگ تقاضوں نے بینکوں کے مالیاتی اشاریوں پر اثر ڈالا، ان کی پیداواری شعبوں کو قرض دینے اور مدد فراہم کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا۔
پبلک سیکٹر بینکوں کی بہتر ہوتی ہوئی مضبوطی کا ایک اور مظہر ان کا سرمائے سے خطرے (وزنی) اثاثہ تناسب (سی آر اے آر)ہے، جو مارچ۲۰۱۵ء میں۴۵ء۱۱؍ فیصد سے بڑھ کر ستمبر۲۰۲۴ء میں۴۳ء۱۵؍؍فیصد ہو گیا، یعنی اس میں ۳۹۸۳؍ بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ یہ نمایاں بہتری نہ صرف ملک کے بینکنگ شعبے کے نئے استحکام اور مضبوطی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اقتصادی ترقی کو بہتر انداز میں سہارا دینے کے لیے پی ایس بی کو مزید قابل بناتی ہے۔