• Thu, 12 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پبلک سیکٹر بینکوں نے مالی سال کے پہلے ۶ مہینوں میں ۴۲ ہزار کروڑ روپے مالیت کے قرضوں کو معاف کیا:مرکز

Updated: December 11, 2024, 6:11 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اپریل سے ستمبر ۲۰۲۴ء کے درمیان ملک کے ۱۲ عوامی بینکوں نے مجموعی طور پر ۴۲ ہزار ۳۵ کروڑ روپے کے قرضے معاف کئے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مرکزی وزارت مالیات نے پیر کو لوک سبھا کو بتایا کہ پبلک سیکٹر بینکوں نے رواں مالی سال ۲۵ـ۲۰۲۴ کے پہلے ۶ مہینوں میں ستمبر تک ۴۲ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے قرضوں کو معاف کیا۔ ایک تحریری جواب کے ذریعہ، ریاستی وزیر پنکج چودھری نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے سرکاری بینک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے ۸ ہزار ۳۱۲ کروڑ روپے مالیت کے قرضوں کو معاف کیا جب کہ پنجاب نیشنل بینک نے اپریل سے ستمبر کے عرصہ کے دوران ۸ ہزار ۶۱ کروڑ روپے کا قرضہ معاف کیا۔ جواب کے مطابق اسی عرصہ میں یونین بینک آف انڈیا نے ۶ ہزار ۳۴۴ کروڑ روپے اور بینک آف بڑودہ نے ۵ ہزار ۹۲۵ کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔ اپریل اور ستمبر کے درمیان ۱۲ عوامی بینکوں نے مجموعی طور پر ۴۲ ہزار ۳۵ کروڑ روپے کے قرضے معاف کئے، جبکہ غیر فعال اثاثوں پر ۳۷ ہزار ۲۵۳ کروڑ روپے وصول کئے گئے۔

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ آنند بھدوریا کے ایک سوال کے جواب میں وزیر پنکج چودھری نے یہ معلومات فراہم کیں جنہوں نے معاف کئے گئے قرض اور اس کی بدولت سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات مانگی تھیں۔ چودھری نے جواب میں کہا کہ اس طرح، قرض معافی کے نتیجہ میں قرض لینے والوں کی ذمہ داریاں معافی نہیں ہوتیں اور اس لئے قرض لینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ چودھری نے مزید کہا کہ قرض لینے والے بدستور ادائیگی کے ذمہ دار ہیں اور بینک، وصولی کے مختلف طریقوں کے ذریعہ ان اکاؤنٹس میں شروع کی گئی وصولی کی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: نومبرمیں ایکویٹی میوچوئل فنڈز کے کاروبار میں ۱۴؍فیصد کی تخفیف

چودھری نے کہا کہ پبلک سیکٹر بینکوں نے ۲۴-۲۰۲۳ میں کل ۱۴ء۱ لاکھ کروڑ روپے کے قرضوں کو معاف کیا تھا جو گزشتہ مالی سال کے ۱۸ء۱ لاکھ کروڑ روپے کے مقابلے کم تھا۔ واضح رہے کہ بینکس، لون معافی کے ذریعے غیر فعال اثاثوں یا نان پرفارمنگ اسیٹس (این پی اے) کو اپنے ریکارڈز میں اثاثے کی بجائے اسے نقصان کے طور پر درج کر دیتا ہے۔ اس کے ذریعہ، بینکس، اپنے این پی اے کی تعداد کم کرکے ٹیکس کے بوجھ کو کم کرسکتے ہیں کیونکہ معاف کی گئی رقم کو منافع میں شمار نہیں کیا جاتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK