ایک رپورٹ کے مطابق، ۱۱ شیروں کی گمشدگی کو ایک سال سے زائد عرصہ مکمل ہوچکا ہے جبکہ دیگر ۱۴؍ شیروں کی موجودگی کے انتہائی کم ثبوت ملے ہیں۔ معاملہ کی سنگینی دیکھتے ہوئے لاپتہ شیروں کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: November 06, 2024, 6:52 PM IST | Jaipur
ایک رپورٹ کے مطابق، ۱۱ شیروں کی گمشدگی کو ایک سال سے زائد عرصہ مکمل ہوچکا ہے جبکہ دیگر ۱۴؍ شیروں کی موجودگی کے انتہائی کم ثبوت ملے ہیں۔ معاملہ کی سنگینی دیکھتے ہوئے لاپتہ شیروں کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
راجستھان کے سوائی مادھوپور ضلع میں واقع رنتھمبور نیشنل پارک (آر این پی) میں موجود شیروں کی ایک تہائی تعداد لاپتہ ہیں۔ ٹیلیگراف آنلائن کے مطابق، راجستھان کے چیف وائلڈ لائف وارڈن پون کمار اپادھیائے نے پیر کو بتایا کہ آر این پی کے کل ۷۵ ؍میں سے ۲۵ ؍شیر گزشتہ ایک سال کے دوران لاپتہ ہو گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب سرکاری طور پر ایک سال میں شیروں کی اتنی بڑی تعداد لاپتہ ہونے کی رپورٹ سامنے آئی۔ اس سے قبل جنوری ۲۰۱۹ء سے جنوری ۲۰۲۲ء کے درمیان رنتھمبور سے ۱۳ شیروں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ ۴ نومبر کو جاری کردہ ایک سرکاری حکم نامہ میں نوٹ کیا گیا کہ رنتھمبور کی نگرانی رپورٹس سے لاپتہ شیروں کی اطلاعات بار بار منظر عام پر آرہی ہیں اور آر این پی کے فیلڈ ڈائریکٹر کو متعدد نوٹس بھیجے جانے کے باوجود، مانیٹرنگ سسٹم میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھئے: آئرلینڈ نے تاریخ میں پہلی بار فلسطینی سفیر کو مقرر کرنے کی منظوری دی
۱۴ اکتوبر ۲۰۲۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، ۱۱ شیر کی گمشدگی کو ایک سال سے زائد عرصہ مکمل ہوچکا ہے جبکہ دیگر ۱۴ شیروں کی موجودگی کے انتہائی کم ثبوت موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق، شیروں کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ اس سال ۱۷ مئی سے ۳۰ ستمبر کے درمیان نظر نہ آنے والے ۱۴ شیروں کی تلاش پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، رنتھمبور میں لاپتہ شیروں کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایکشن لیتے ہوئے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے پیر کو گمشدگیوں کی تحقیقات کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مانیٹرنگ ریکارڈ کا جائزہ لے گی اور اگر پارک حکام کی طرف سے کوئی کوتاہی پائی گئی تو کارروائی کی سفارش کرے گی۔ اپادھیائے نے بتایا کہ کمیٹی دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ ہم نے مانیٹرنگ میں کچھ خلاء کی نشاندہی کی ہے جسے ہم دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔