اس ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ قارئین اے آئی سے تیار کردہ شاعری کو انسان کی لکھی ہوئی شاعری سے قابل اعتبار طور پر الگ نہیں کر سکتے اوراے آئی نظموں کو اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 20, 2024, 7:06 PM IST
اس ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ قارئین اے آئی سے تیار کردہ شاعری کو انسان کی لکھی ہوئی شاعری سے قابل اعتبار طور پر الگ نہیں کر سکتے اوراے آئی نظموں کو اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے۔
قارئین کیلئے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کی جانب سے لکھی گئی نظموں کو پہچاننا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ ایک تحقیق میں سامنے آیا۔ امریکہ کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شاعری پڑھنے کے شوقین عام افراد اے آئی کی تیار کردہ نظموں کو انسانوں کی تحریر کردہ تصور کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں عام افراد کو انگلش زبان کے ۱۰؍مشہور شاعروں کی لکھیں نظمیں اور چیٹ جی پی ٹی۳ء۵؍ کی جانب سے ان شاعروں کے انداز میں لکھی گئی نظمیں دکھائی گئیں۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ اے آئی ٹیکنالوجی کی تحریر کردہ شاعری کے مقابلے میں حقیقی شاعر کی نظموں کو پہچاننے کا امکان ۷۵؍ فیصد ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ عام افراد حقیقی شاعروں کے تحریری کام کے مقابلے میں اے آئی کی تیار کردہ نظموں کو زیادہ معیاری قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: پوتن `از خود نہیں رکیں گے`؛ زیلنسکی نے یوکرین جنگ کے ۱۰۰۰ ویں دن خبردار کیا
محققین کے مطابق عام افراد ممکنہ طور پر اس لئے اے آئی کی تیار کردہ نظموں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ عام فہم ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں حقیقی شاعروں کی نظموں کی پیچیدگی اور دیگر پہلو نظموں کی کشش میں کردار ادا کرتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ اس طرح کی نظموں میں گہرے مفہم ہوتے ہیں اور اے آئی کا تخلیقی کام اس سے محروم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر عام افراد شاعری کے گہرے مفہوم کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ اے آئی چیٹ بوٹ کی شاعری پسند کرتے ہیں جس میں سب کچھ سادہ انداز سے بیان کر دیا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق بلاشبہ اے آئی ٹیکنالوجی معروف شاعروں جیسا تخلیقی کام لگ بھگ مثالی انداز سے کرسکتی ہے مگر ایک اچھے شاعر کی نظم کسی الگورتھم سے زیادہ بڑھ کر ہوتی ہے، جس میں جذبات، حیرت، ہمدردی، انکشافات اور متعدد دیگر پہلو موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قارئین کے لیے مشینی تحریری کام کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے اور بظاہر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اے آئی ٹیکنالوجی انسانی تجربے کی نقل نہیں کرسکتی۔