• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’واپسی ناکام ہوئی تو سنیتا ولیمز بھاپ بن کر اُڑسکتی ہیں‘‘

Updated: August 22, 2024, 6:47 PM IST | New York

خلائی امور کے ماہر روڈی رڈولفی نے اندیشہ ظاہر کیا، کہا کہ تین طرح سے ان کی واپسی ناکام ہو سکتی ہے۔

Sunita Williams and Butch Wilmore. Photo: INN.
سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور۔ تصویر:آئی این این۔

ہند نژاد امریکی خلائی مسافر سنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی بُچ وِلمور گزشتہ دو ماہ سے خلائی اسٹیشن میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ صرف ۱۰؍ دنوں کیلئےوہاں گئے تھے، لیکن اسٹارلائنر خلائی طیارہ میں تکنیکی خرابی کے سبب اب تک ان کی واپسی نہیں ہوپائی ہے۔ وہ کب تک واپس آ سکیں گے، اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس درمیان خلائی امور کے ماہر اور سابق امریکی فوجی کمانڈر روڈی رڈولفی نے یہ سنسنی خیز لیکن روح کو لرزا دینے والا خوفناک دعویٰ کیا ہے کہ سنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی کی واپسی کی کوشش ناکام ہوئی تو وہ بھاپ بن کر اُڑسکتے ہیں۔ رڈولفی کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس خراب خلائی طیارہ سے ہی واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہوا کی رگڑ سے پیدا ہونے والی شدیدگرمی کے سبب وہ بھاپ بن جائیں گے اور ان کی موت ہو جائے گی ۔ یہ نا ممکن نہیں ہے۔ ایسا ماضی میں ہو چکا ہے۔ ’ڈیلی میل‘ کو د ئیے گئے ایک انٹرویو میں رڈولفی نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بوئنگ اسٹارلائنر کو بحفاظت زمین پر لانے کیلئے تکنیکی طورپر اسے ایک درست زاویہ پر لانا ہوگا لیکن یہ بہت مشکل ہے کیوں کہ جہاز میں پہلے ہی تکنیکی خرابی ہے۔ اگر زاویہ درست نہیں رہا تو یا تو خلائی مسافر زندہ جل جائیں گے یا پھر دھماکہ سے پھٹ جائیں گے۔ جہاز کے دوبارہ واپس جانے کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر وہ واپس گیا تو ان کے پاس صرف ۹۶؍ گھنٹے کی آکسیجن ہو گی جو زیادہ تکلیف دہ صورتحال ہو گی۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ۵۰؍ سے زائد فلسطینی شہید، متعدد زخمی

رڈولفی نے مزیدکہا کہ خلائی مسافروں کا خلاء میں اُچھلنا یعنی دوسری طرف بڑھنے کی کوشش کرنا سب سے خراب حالت ہوگی کیونکہ تب وہ خلاء ہی میں بھاپ بن جائیں گے۔ دونوں ہی حالت میں ان کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر انہوں نے بہت تیز زاویہ اور رفتار کے ساتھ فضا میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ہوا اور اسٹارلائنر کی رگڑ کے سبب خلائی مسافروں کے زندہ جل جانے کا خطرہ بھی رہے گا۔ بہرحال ناسا نے دونوں خلائی مسافروں کو وہاں سے واپس نکالنے کے لیے ’اسپیس ایکس‘ کے ڈریگن کیپسول کی مدد لینے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن اس منصوبہ کے ذریعہ اگر انہیں واپس لایا جاتا ہے تو وہ فروری یا مارچ ۲۰۲۵ء سے پہلے زمین پر واپس نہیں آسکیں گے۔ اتنے دنوں تک خلا ء کی مائیکرو گریویٹی میں رہنا دونوں ہی خلا بازوں کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر بہت فرق پڑے گا۔ ناسا کی رپورٹس کے مطابق دونوں ہی خلا بازوں کو دھیرے دھیرے صحت سے متعلق کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ بوئنگ کی طرف سے بھی یہ بیان آیا ہے کہ اسٹارلائنر کی خرابی دور کرنے کام چل رہا ہے اور وہ کسی ایمرجنسی صورتحال میں خلائی مسافروں کو واپس لانے کے اہل ہیں لیکن وہ کسی اگر مگر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے، اس لئے ناسا کی مدد لے رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ سنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی کو خلا ء میں پھنسے ہوئے ۲؍ ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران انہیں اسپیس ٹائم اور زمین کے وقت کا فرق سمجھنے میں دشواری پیش آنا شروع ہو چکی ہے۔ عام طور پر خلاباز ۵۰؍ دن سے زیادہ اسپیس اسٹیشن میں نہیں ٹھہرتے ہیں اور سنیتا ولیمز اس مرتبہ صرف ۱۰؍دنوں کے لئے گئی تھیں لیکن جہاز میں ہیلیم لیٖک کی وجہ سے وہ وہیں پھنس گئیں۔ خلابازوں کے لئے دوسرا بڑا مسئلہ آنکھوں کی روشنی کا درپیش ہوتا ہے کیوں کہ مسلسل ’زیرو ‘ گریویٹی یعنی بالکل نہ کے برابر کشش ثقل میں ٹھہرے رہنے کی وجہ سے آنکھوں پر شدید دبائو پڑتا ہے جو بصارت سے محرومی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ تیسرا بڑا مسئلہ جو خلابازوں کے ساتھ پیش آتا ہے وہ ہڈیوں کے بھربھرے پن میں اضافہ ہونا ہے اوربدقسمتی سے یہ تینوں مسائل سنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی کے ساتھ ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK