لوک سبھا الیکشن میں انڈیا اتحاد کی جیت کیلئے محنت کرنے والے سماجی کارکنان کا شرد پوار کوخط، ایسے امیدواروں کیلئے کام نہ کرنے کا اعلان۔
EPAPER
Updated: October 02, 2024, 12:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
لوک سبھا الیکشن میں انڈیا اتحاد کی جیت کیلئے محنت کرنے والے سماجی کارکنان کا شرد پوار کوخط، ایسے امیدواروں کیلئے کام نہ کرنے کا اعلان۔
گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر عوام کے علاوہ آئین کے تحفظ کیلئے فکرمند سماجی تنظیموں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی کی اور قومی سطح پر ’انڈیا اتحاد‘ کی کامیابی میں ان سماجی کارکنان کا بھی اہم کردار تھا جو گائوں گائوں اور گلی گلی جا کر ووٹروں کو آئین کی اہمیت سمجھاتے رہے اور اس کی حفاظت کی خاطر این ڈی اے کے بجائے انڈیا اتحاد کو ووٹ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔ لیکن لوک سبھا الیکشن کے بعدکی صورتحال دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کو بی جے پی سے کوئی خاص بیر ہے کیونکہ بڑی تعداد میں روزانہ کسی نہ کسی علاقے سے بی جے پی لیڈران اپنی پارٹی چھوڑ کر مہا وکاس اگھاڑی خاص کر شرد پوار کی پارٹی این سی پی میں شامل ہو رہے ہیں اور ان کا نہ صرف پارٹی میں گرم جوشی سے استقبال ہو رہا ہے بلکہ انہیں الیکشن کا ٹکٹ بھی دیا جا رہا ہے۔ اس سے ’سیکولرازم‘ کے نام پر ووٹ دینے والے عوام اور ووٹ دلوانے کیلئے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکنان کے درمیان بے چینی ہے۔
اسی بنا پر مختلف تنظیموں سے وابستہ سماجی کارکنان نے ایک مشترکہ خط مہا وکاس اگھاڑی کے سب سے سینئر لیڈر شردپوار کو بھیجا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی، خاص طور سے این سی پی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی سے آئے ہوئے لیڈران کو ٹکٹ نہ دے۔ ورنہ وہ لوک سبھا الیکشن کی طرح اسمبلی الیکشن میں عوام کے درمیان مہا وکاس اگھاڑی یا این سی پی کیلئے کام نہیں کر سکیں گے۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جی جی پاریکھ، شردکدم، ڈالفی ڈیسوزا، سمبھاجی بھگت، فیروز میٹھی بور والا اور ارجن ڈانگے کے علاوہ تھانے کے وشواس اٹگی، ستارا کی ایڈوکیٹ ورشا دیشپانڈے، سانگلی کے دھناجی گوکھ، لاتور کے مادھو بائوگے، بارامتی کے سریش کھوپڑے، دھولیہ کے اویناش پاٹل اور پونے کے سبھاش وارے نے یہ خط شرد پوار کے نام لکھا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:یکم اکتوبر سے اقتصادی محاذ پر کئی تبدیلیوں کا نفاذ ہوا
ان سماجی کارکنان کا کہنا ہےکہ ’’ اسمبلی الیکشن میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے معاملے پرغور وخوض ہونا ضروری ہے۔ ‘‘خط میں لکھا ہے کہ ’’ لوک سبھا الیکشن میں مہا وکاس اگھاڑی کو بی جے پی سے اقتدار سے دور رکھنے کیلئے ووٹ ملے تھے۔ یہ بی جے پی لیڈران کی جانب سے آئین میں تبدیلی کے تعلق سے دیئے گئے بیانات کا ووٹروں کی جانب سے رد عمل تھا۔ ‘‘آگے یہ سماجی کارکنان کہتے ہیں کہ ’’ جس وقت بی جے پی کی غیر آئینی سرگرمیاں جاری تھیں، اس وقت اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے اور ہوا کا رخ بدلنے پر لوٹ کر آنے والے لیڈران کو اگر ٹکٹ دیا گیا تو ہم جیسے کارکنان کا ان کیلئے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے ’’ ہم سماجی جدوجہد کرنے والے کارکنان ہیں۔ جن اسمبلی حلقوں میں ایسے( بی جے پی سے آنے والے) امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جائیں گے ہم وہاں کام نہیں کریں گے۔ ‘‘
سماج کارکنا ن کا کہنا ہے کہ ’’ پارٹی کو چلانے اور بڑھانے کیلئے آپ کے سامنے کئی چیلنج ہوں گے۔ اسے ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن سیاست میں قدریں، اخلاقیات اور نظریات اہم ہوتے ہیں۔ اس بات سے آپ بھی اتفاق کرتے ہوں گے۔ لہٰذا اس معاملے میں وقتی فائدے کے بجائے وسیع تر مفاد میں غور کیا جانا چاہئے۔ ‘‘ خط میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے لیڈران حالات کے بدلنے پر واپس آ رہے ہیں ااور انہیں ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں ان کارکنان کے ساتھ نا انصافی ہوگی جو مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ سارے بدعنوان لوگ ایک جمع ہو چکے ہیں اب اگر وہ واپس آتے ہیں تو انہیں پارٹی میں شامل نہ کیا جائے ورنہ ہم مہا وکاس اگھاڑی کیلئے کام نہیں کریں گے۔