یہ کمیٹی صرف عید الفطر کے موقع ہی پراسپورٹس مقابلے کا انعقاد کرتی ہے جس میں قرب وجوار کے چھوٹے بچے اور نوجوان جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ جیتنے والوں کےساتھ حصہ لینے والوں کوبھی انعام سے نوازا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 14, 2024, 11:15 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
یہ کمیٹی صرف عید الفطر کے موقع ہی پراسپورٹس مقابلے کا انعقاد کرتی ہے جس میں قرب وجوار کے چھوٹے بچے اور نوجوان جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ جیتنے والوں کےساتھ حصہ لینے والوں کوبھی انعام سے نوازا جاتا ہے۔
یہاں میگھراج شیٹی مارگ، سائوٹر اسٹریٹ کےچند ایسے افراد جو ملت کادرد رکھتےہیں، نے ۶۰؍ کی دہائی میں یہاں کے بالخصوص غریب بچوںکی تعلیم وتربیت اور ان میں کھیل کود کا جذبہ فروغ دینے کیلئے ’عید اسپورٹس کمیٹی ‘ قائم کی تھی۔ جو گزشتہ تقریباً ۶۵؍سال سےبڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔اس کے تحت ہر سال عید کے دن کھیل کود کے مقابلے منعقد کئے جاتےہیں ، جن میں قرب و جوار کے چھوٹے بچوںکےعلاوہ اسکولی طلبہ اور نوجوان جوش و خروش سے حصہ لیتےہیں۔ اس تقریب کی مقبولیت کا اندازہ اس کے ۶۵؍سالہ دورانیہ سے لگایا جاسکتاہے۔ اب بھی بڑی پابندی سےیہاں ہر سال عید والے دن کھیل کا جشن منایا جاتا ہے۔ امسال بھی عید کے دن کھیل کود کے مقابلے ہوئے۔
سائوٹر اسٹریٹ کی آغاخان، عمر سیٹھ ، جسدون ،ہری جے رام اور ہینگ والی چال کے مرحوم عبدالقدوس جہانگیر، محمد امین انصاری، عبدالرحمٰن صوفی( سابق میونسپل کارپوریٹر)، محمد سعید رسول بخش،صابر بھائی ، نبی حسن ٹیلر اور محمد عمر انصاری نے ’عید اسپورٹس کمیٹی ‘ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ جس نے اب ایک باقاعدہ مہم کی صور ت اختیار کرلی ہے ۔ پروگرام منعقد کرنےکیلئے یہ حضرات اپنی جیب سے فنڈ جمع کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی صاحب خیر اس مقصد کیلئے عطیہ دینے کا خواہشمند ہوتا، اسے منع نہیں کیاجاتاتھا۔اب نئی پیڑھی نے اس مہم کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ۔ وہ بھی اپنے طورپر اس کھیل میلہ کو منعقد کرنےکا انتظام کررہی ہے۔
عید والے دن مذکورہ محلوںاور چال کے سیکڑوں بچے ، طلبہ اور نوجوان سائوٹر اسٹریٹ جنکشن پر بنائے جانے والے عارضی میدان میں عید کی نمازکےبعد جمع ہوجاتےہیں۔ کسی زمانےمیں اس کی انٹری فیس صرف ۵؍روپے تھی ، اب ۲۰؍ روپے ہے۔ کھیل کے مقابلوں میںحصہ لینے کیلئے بچے کی عمر کم ازکم ۳؍سا ل اور بڑی عمر والوںکیلئے کوئی قید نہیں ہے۔مختلف قسم کی ریس ( دوڑ) کے مقابلے ہوتےہیںجن میں چمچ گوٹی، بورا، موم بتی، الفابیٹ ، ایڈ اینڈسبسٹریکٹ ، ہاکی اینڈبال، آٹا پیپر منٹ، غبارہ ، جمپنگ جیک، کارڈبورڈ ، جرمن بال، کیلااور اسپنج اینڈ باٹل ریس شامل ہیں۔منہ میں چمچ لے کر دوڑنے کے علاوہ بورے میں پیر ڈال کر جلتی موم بتی ہاتھ میں پکڑکر دوڑنے کے مقابلوںمیں بچے بڑی گرمجوشی سے حصہ لیتےہیں۔ ایک پیرمیں غبارہ باندھ کر دوسرے پیر سے اپنے حریف کے غبارہ کو پھوڑنے والا کھیل بھی کافی مقبول ہے۔ میوزیکل چیئر اور ہانڈی پھوڑنے والا کھیل بھی کافی دلچسپ ہے۔ میوزیکل چیئر گیم میں چند کرسیاں رکھ دی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہانڈی پھوڑنےوالا کھیل بھی بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ ایک رسی میں ہانڈی باندھ دی جاتی ہے ۔مقابلہ میں حصہ لینے والے کی آنکھ پر پٹی باندھ کر ہاتھ میں ایک ڈنڈا دے دیاجاتاہے۔ اسے ہانڈی پھوڑنی ہوتی ہے۔ اسی طرح رسہ کشی اور دیگر کئی مقابلے عیدکی صبح سے شروع ہوکر دیر رات تک جاری رہتےہیں۔ بعدازیں تقسیم ِ انعامات کا پروگرام منعقد کیا جاتا ہے۔
مرحوم عبدالقدوس جہانگیرکےفرزندعامر عبدالقدوس جہانگیر کےمطابق ’’مرحوم والد کے علاوہ علاقہ کے چند بزرگوں اور کھیل کود سے دلچسپی رکھنےوالی شخصیات نے ایک خاص مقصد کے تحت اس مہم کوشروع کیاتھا۔ دراصل علاقے کے غریب بچوںکی تعلیمی ضروریات پوری کرنےکیلئے اس ایونٹ کو شروع کیاگیاتھا۔ ساتھ ہی بچوں میں کھیل کود سے متعلق دلچسپی پیدا کرنا مقصد تھا۔ اسی وجہ سے یہ کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جو عید والے دن کھیل کودکےمقابلوں کا انعقاد کرتی ہے اور کامیاب ہونے والے بچوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ‘‘
کمیٹی سے وابستہ رہے شیخ پرویز عبدالرحمٰن ،عمر ۵۶؍ سال نےانقلاب کوبتایاکہ ’’ جہاں تک میرا تعلق ہے، کم ازکم ۵۰؍ سال سے میں اس کمیٹی کے تعلق سے جانتاہوں۔ بچپن سے جوانی تک کمیٹی کی نگرانی میں عید والے دن متعدد کھیل کود کے مقابلوںمیں حصہ لینے کاتجربہ بھی رہاہے۔میری اطلاع کے مطابق اس کمیٹی کوقائم ہوئے تقریباً ۶۵؍؍سال ہوگئے ہیں۔ مقامی دوراندیش بزرگوںنے ایک خاص مقصد کے تحت یہ بیج بویاتھا ،جو اب تناور درخت بن گیاہے۔چونکہ علاقہ کے نوجوان مختلف قسم کے کھیل کود مثلاً فٹ بال، باسکٹ بال ، والی بال اور کرکٹ وغیرہ میں کافی دلچسپی رکھتے آئے ہیں ، اسی وجہ سے یہاں کےبزرگوں نے بچوں اور نوجوانوں میں کھیل کود کے تئیں مزید دلچسپی اور شوق پیدا کرنےکیلئے مہم شروع کی تھی۔ جس کا بہترین نتیجہ برآمد ہورہاہے۔ مہم کو شروع کرنےکادوسرا مقصد یہ تھاکہ عید والے دن مقامی بچے ادھر اُدھر نہ جائیں بلکہ اپنے محلے میں رہیں۔ اس ایونٹ کو شروع کرنے کیلئے یہاں کےبزرگوںنے بڑی محنت کی تھی۔ اپنی جیب کے پیسوں سے پورا پروگرام منعقد کرتے تھے۔ اگر اپنی خوشی سےکوئی اس میں مالی معاونت کرناچاہتا تو اسے منع نہیں کرتےتھے۔‘‘
شیخ پرویز کے بقول ’’۹۰ءکی دہائی میں ۲؍سال اس ایونٹ کی ذمہ داری میں نے بھی سنبھالی تھی۔ اس دوران کمیٹی کے ساتھیوں سے مشورہ کرکے کھیل کود میں ہارنےوالے بچوںکی حوصلہ افزائی کیلئے بھی انعامات تقسیم کرنےکا سلسلہ شروع کیاگیاتھا،جو اب بھی جاری ہے۔د راصل بچے تو بچے ہوتےہیں۔ ہارنے کی صورت میں متعدد بچوںکوروتا دیکھ کر میں نے تجویزپیش کی کہ انہیں بھی انعام دیناچاہئے ۔ اس خیال پر ساتھیوںنےکہاکہ انہیں کیسے انعام دیاجائے گا،فنڈ کا مسئلہ ہوگا، جس پرمیں نے کہاکہ ہم ان سے جو انٹری فیس ۵؍ روپے لیتےہیں ۔اسی پانچ روپےکی چیزوں پر مشتمل انعام انہیں دے سکتےہیں۔کمیٹی کےفیصلہ پر اس دور میں ہارنے والے بچوں کیلئے عبدالرحمٰن اسٹریٹ سے ۵؍روپے میں فٹ پٹی ، پنسل ، ربروغیرہ خرید کر ان بچوں میں تقسیم کرنے کا عمل کارگر ثابت ہوا۔ ہارنے والے بچے انعام پاکر بے حد خوش ہوئے۔ اس طرح یہ سلسلہ شروع ہوا۔ جیتنےوالے بچوںکو کس طرح کا انعام دیاجاتاہے ،یہ پوچھنے پر انہوںنے بتایاکہ ’’اسکول بیگ، گھڑی، ڈنر سیٹ، ٹی سیٹ اورحال میں تو واشنگ مشین بھی بطور انعام دی گئی تھی۔‘‘ایک سوال کے جواب میں شیخ پرویز نے بتایاکہ ’’ ۵۰؍سال سےمیں یہ ایونٹ دیکھ رہاہوں ،کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بڑی خوش اسلوبی ، شائستگی اور منظم طریقہ سے محلے کے ذمہ داران ایونٹ منعقد کرتےہیں۔ان آنکھوں نے ایک عرصہ تک مقامی معروف باسکٹ بال کوچ محمد امین انصاری کو پورے دن ہونےوالے کھیل کود مقابلوںکی سیٹی بجاکر ریفری کی ذمہ داری اداکرتے دیکھاہے۔ تقسیم انعامات کے پروگرام میں مقامی رکن اسمبلی اور کارپوریٹر مہمان کے طورپر شرکت کیاکرتے تھے۔ ‘‘
شیخ پرویز کے مطابق ’’ اس مہم کو دینی سرگرمیو ںسے بھی وابستہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مثلاً تقسیم انعامات کی تقریب کے وقت خوش الحان بچہ سے قرأت کروائی جاتی ہے۔ اسےبھی انعام دیاجاتاہے۔ تقریباً ۲۰؍سال قبل ایک محلہ کےبچے نے رمضان المبارک میں پوری تراویح پڑھی تھی۔ عید اسپورٹس کمیٹی کی جانب سے اسے بھی عیدکےدن ہونےوالے پروگرام کے موقع پر اعزاز سے نوازا گیا جس کی وجہ سے وہ بچہ بے حد خوش ہواتھا۔ مجموعی طورپر عید اسپورٹس کمیٹی کی یہ مہم کامیابی سے اپنا سفر طے کررہی ہے۔ ہر سال عید والے دن سے تین چار سو بچے کھیل کود کے جشن سے محظوظ ہوتے ہیں۔‘‘