• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوڈان: جنگ میں شدت کے سبب ۱۴؍ علاقوں میں قحط کے خدشات: آئی پی سی کا انتباہ

Updated: June 27, 2024, 6:34 PM IST | Darfur

گلوبل ہنگر مانیٹری (آئی پی سی) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر سوڈان میں جنگ میں مزید شدت آتی ہے تو وہاں کے ۱۴؍ علاقوں میں قحط کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ آئی پی سی کے مطابق ان علاقوں میں دارالحکومت خرطوم کے کچھ حصے، دارفور، کوردوفان اور ال گیزیرہ ریاست کے علاقے شامل ہیں۔ خیال رہے کہ جنگ زدہ سوڈان میں بڑے پیمانے پر لوگ غذائی قلت سے جوجھ رہے ہیں۔

People in Sudan are struggling with food shortages due to war. Image: X
سوڈان میں لوگ جنگ کے سبب غذائی قلت سے جوجھ رہے ہیں۔ تصویر: ایکس

گلوبل ہنگر مانیٹری (آئی پی سی) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر سوڈان میں جنگ میں شدت آتی ہے تو وہاں کے ۱۴؍ علاقوں میں قحط کے خدشات ہیں۔ انٹی گریٹیڈ فوڈ سیکوریٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) کے مطابق ان علاقوں میں دارالحکومت خرطوم کے کچھ حصے، دارفور ، کوردوفان اور ال گیزیرہ ریاست کے علاقے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: باراسوسی ایشنز نئے فوجداری قوانین سے خلاف مظاہروں سے گریز کریں: بار کاؤنسل آف انڈیا

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سوڈان میں ۷؍ لاکھ ۵۵؍ ہزار سے زائد افراد ’’تباہ کن غذائی بحران‘‘ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ سوڈان کی کل ۵ء۸؍ ملین سے زائد آبادی، جو مجموعی آبادی کا ۱۸؍ فیصد ہے، خوراک کی کمی سے جوجھ رہے ہیں جس کا نتیجہ شدید غذائی قلت اور موت کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ خیال رہے کہ سوڈان فوج اور آر ایس ایف کے درمیان گزشتہ سال جنگ چھڑی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گئی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں تشویشناک اضافہ، امریکی رپورٹ میں انکشاف

فوج کے درمیان جنگ کے نتیجے میں سوڈان کے مغربی علاقے دارفور میں تشدد پھوٹ پڑا ہے جس کی وجہ سے سوڈان دنیا کے سب سے بڑے نقل مکانی کے بحران کا سامنا کررہا ہے۔ آئی پی سی نے کہا کہ اس کی تشخیص کا مطلب یہ ہے کہ سوڈان کے ۱۴؍ علاقوں میں بدترین صورتحال کے تحت قحط کے خدشات ہیں۔ خیال رہے کہ کسی بھی علاقے میں قحط کا اعلان اس وقت کیا جاتا ہے جب وہاں کی ۲۰؍ فیصد سے زائد آبادی شدید غذائی قلت، تقریباً ۳۰؍ فیصد بچے بھکمری سے جوجھ رہے ہوں اور روزانہ ۱۰؍ ہزار میں سے ۲؍افرادبھکمری، فاقہ کشی یا بیماریوں کے سبب ہلاک ہو رہے ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK