طلبہ نے گریجویشن تقریب کے دوران فلسطین کی حمایت میں پلے کارڈ اٹھائے جن پر’آزاد فلسطین، نسل کشی بند کرو اور اب تعلقات ختم کرو‘جیسے نعرے درج تھے، تل ابیب یونیورسٹی کےساتھ ہر طرح کے روابط ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے انتباہ کی پرواہ نہیں کی اور فلسطین کیلئےکھل کر آواز بلند کی۔
طلبہ تقریب کے دوران فلسطین کے حق میں تحریرکردہ نعروں کے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں۔ تصویر : آئی این این
اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ نے گریجویشن تقریب کے دوران فلسطین کی حمایت میں پوسٹرز اٹھائے جن پر’آزاد فلسطین، نسل کشی بند کرو اور اب تعلقات ختم کروجیسے نعرے درج تھے۔ ’مکتوب میڈیا‘ کےایک ویڈیو کے حوالہ سے کہاگیا کہ یہ پوسٹرز کیفیہ پہننے والے طلبہ نے دکھائے تھے۔ یہ طلبہ ینگ انڈیا فیلو ہیں، جنہیں اشوکا یونیورسٹی کے ایک فیلو شپ پروگرام ینگ انڈیا فیلوشپ (وائی آئی ایف) سے نوازا گیا ہے۔
فیلوشپ لبرل اسٹڈیز میں ایک سالہ پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ فراہم کرتی ہے۔ اشوکا یونیورسٹی کےطلبہ نے اسرائیل میں تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کے خلاف بھی احتجاج کیا اور ہر طرح کےر وا بط ختم کرنے کی اپیل کی۔ کیفیہ پہنے اور پوسٹر اٹھائے ایک طالب علم کو یہ کہتے ہوئے سنا گیاکہ’’یہ فلسطین کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے اور نسل کشی کی اجازت دینے والے ملک کے ادارے کے ساتھ ہماری یونیورسٹی کے تعاون کے خلاف احتجاج ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:فرانس، سوئزر لینڈ، اٹلی میں شدید بارش، طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ،۷؍ افراد ہلاک، کئی لاپتہ
قبل ازیں یونیورسٹی حکام نے یو جی اور پی جی گریجویشن تقاریب سے قبل طلبہ کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ احتجاج سے متعلق کوئی پلے کارڈ یا کوئی چیز پہنتے ہیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ اس پر طالب علم نے کہا’’ یہ بھی یونیورسٹی کی کارروائی کے خلاف احتجاج ہے۔ گزشتہ ماہ یونیورسٹی کی منتخب طلبہ تنظیم نے باضابطہ طور پر وائس چانسلر کو ایک درخواست بھیجی تھی جس میں یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔ پٹیشن پر۴۴۲؍ اسٹوڈنٹس، ۱۰۵؍ سابق اسٹوڈنٹس اور۳۹؍ فیکلٹی ممبران نے دستخط کیے تھے۔ پٹیشن کے بیان میں غزہ پر جاری اسرائیلی حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور یونیورسٹی سے تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس کے اسرائیلی فوج اور اسلحہ ساز اداروں سے مضبوط تعلقات ہیں اور جس نے اپنے فوجیوں کے لیے’کیئر‘ پیکیج کیلئے کراؤڈ فنڈز فراہم کیے ہیں۔
درخواست میں یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ’’تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ تمام موجودہ تعلیمی اور تحقیقی تعاون کو فوری طور پر معطل اورکسی بھی نئے معاہدے یا شراکت میں شامل ہونے سے گریز کیاجائے ‘‘جب تک کہ اسے معروف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے منظور نہیں کیا جاتا اور اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔
اشوکا یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق، اس کی تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ ایک تحقیقی شراکت داری ہے، جس میں ’’تعلیم کیلئے فیکلٹی وزٹ، طلبہ کی نقل و حرکت (آؤٹ باؤنڈ اور ان باؤنڈ)، تحقیقی تعاون، مختصر مدت کے مطالعہ کے مواقع، نیز مشترکہ پروگرام شامل ہیں۔ انتظامیہ نے سفارتی طور پر درخواست کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ کہا ہے کہ وہ ’’کسی بھی صورت میں اس معاملے پر تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے پر غور نہیں کرے گی‘‘۔ انتظامیہ نے کہا کہ تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ تعلقات ختم کرنا ایک’سیاسی موقف‘ ہوگا جسے یونیورسٹی اپنانے کو تیار نہیں ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہے؟
اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ نے سفارتی طور پر درخواست کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہےکہ وہ ’’کسی بھی صورت میں تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے پر غور نہیں کرے گی۔‘‘ انتظامیہ نے کہا کہ تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ تعلقات ختم کرنا ایک ’سیاسی موقف‘ ہوگا جسے یونیورسٹی اپنانے کو تیار نہیں ہے۔