• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ کی کمیشن برائے حقوق اطفال کی مدارس کی منظوری منسوخ کرنے کی سفارش پر روک

Updated: October 21, 2024, 10:00 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی مدرسوں کی منظوری منسوخ کرنے کی سفارشات پر روک لگا دی ہے۔ جمیعت علمائے ہند نے کمیشن کی سفارشات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عدالت نے کہا کہ جبکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، ایسی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔

Supreme Court of India. Photo: INN
ہندوستانی سپریم کورٹ ۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ نے پیر کو قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی اس سفارش پر روک لگادی جس میں اس نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو ۲۰۰۹ء کے تعلیم کے حق کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں مدرسوں کی منظوری منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ جمیعت علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرنے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ،جسٹس جے بی پاردھی والااور منوج مسرا نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا، اس عرضی میں قومی کمیشن کی ہدایات کو چیلنج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ ۷؍ جون کو حقوق اطفال کمیشن نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری سے کہا تھا کہ جو مدارس تعلیم کے حق کے قانون پر عمل در آمد نہ کریں ان کی منظوری منسوخ کردی جائے۔ساتھ ہی ۲۵؍ جون کو کمیشن نے مرکزی وزارت تعلیم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مدارس کا معائنہ کرے جہاں یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سیسٹم رائج ہے۔جہاں یہ نظام رائج نہیں ان کی منظوری منسوخ کریں۔

یہ بھی پڑھئے: منوج جرنگے پاٹل کی مولانا سجاد نعمانی سے ملاقات،۲؍گھنٹے تک تبادلہ خیال

ایک دن بعد چیف سکریٹری نے ضلع کلکٹر کو سرکاری امدادی مدارس کی تحقیق کرنے کی ہدایت دی، کہ جن مدارس میں غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہیں فوری طور پر سرکار کے منظور شدہ اسکول میں داخل کریں۔جبکہ تریپورہ حکومت نے ۲۸؍ اگست کو یکساں ہدایت جاری کی تھی۔اس معاملے پر ۱۰؍ جولائی کو مرکزی حکومت نے ریاستوں کو کمیشن کی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کا حکم جاری کیا۔جس کے خلاف جمیعت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی کہ حکومت کا یہ فیصلہ آئین کی دفعہ ۳۰؍کی خلاف ورزی ہے، جس میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جبکہ معاملہ عدالت میں ہے اترپردیش اور تریپورہ حکومت کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔اپریل میں سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جس میں ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ کو وہاں سے نکال کر دیگر تعلیمی اداروں میں داخل کرایا جائے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے ۱۷؍ لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔

یہ بھی پڑھئے: جسٹس گوائی نے ججوں کی سیاست دانوں کی تعریف کرنے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا

اترپردیش میں مدرسے اقلیتی فلاح وبہبود کے محکمہ کے ماتحت آتا ہے جبکہ دیگر اقلیتوں کے تعلیمی ادارے محکمہ تعلیم کے ماتحت آتے ہیں۔ستمبر میں قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے مدرسوں کا غیر آئینی قرار دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے مدرسے موافق مقام نہیں ہیں۔جبکہ کمیشن نے مزید کہا کہ مدرسے حق تعلیم کے تحت’’ اسکول ‘‘کے زمرے میں نہیں آتے۔اکتوبر ۱۱؍ تاریخ کوبچوں کے حقوق باڈی کے چیئر پرسن پرینانک کانونگو نے ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں چل رہے مدرسوں کی امداد روکنے کیلئے مکتوب لکھا تھا۔جس میں مدرسوں کے طلبہ کو دیگر اسکول میں داخل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔اس کا یہ مکتوب مدرسوں کے کردار کے تعلق سے تشکیل دئے گئے کمیشن کی رپورٹ کے بعد لکھا گیا جس میں مدرسوں پر تعلیم کے حق کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ حالانکہ کانونگو نے وضاحت کی کہ انہوں نے مدرسوں کو بند کرنےنہیں کہا بلکہ غریب مسلم بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے والے مدرسوں کو دی جارہی سرکاری امدا بند کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK