• Thu, 09 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

حکومت کے پاس مفت اشیاء کیلئے رقم ہے لیکن ججوں کی تنحواہ کیلئے نہیں: سپریم کورٹ

Updated: January 08, 2025, 8:00 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ عدالتی افسران کی تنخواہوں اور پنشن کا فیصلہ کرتے وقت حکومت کو اپنی مالی مجبوریوں کا خیال رکھنا چاہیے، سپریم کورٹ نے منگل کو زبانی تبصرے میں کہا کہ حکومتوں کے پاس ایسے شہریوں کو مفت چیزیں فراہم کرنے کیلئے رقم ہوتی ہے جو کام نہیں کرتے، لیکن ججوں کی تنخواہ کیلئے رقم نہیں ہوتی۔

Supreme Court of India. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

بار اور بنچ کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی کے اس بیان کے بعد کہ عدالتی افسران کی تنخواہوں اور پنشن کا فیصلہ کرتے وقت حکومت کو اپنی مالی مجبوریوں کا خیال رکھنا چاہیے۔سپریم کورٹ نے منگل کوزبانی طور پر تبصرہ کیا کہ ریاستی حکومتوں کے پاس ایسے شہریوں کو مفت اشیاء فراہم کرنےکیلئے پیسے ہوتے ہیں جو کام نہیں کرتے ہیں، جبکہ ضلعی عدلیہ کے ججوں کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے دوران مالی بحران کا حوالہ دیا جاتا ہے۔سماجی بہبود کی اسکیموں جیسے مفت پبلک ٹرانسپورٹ اور بجلی کے بلوں میں رعایت کو کچھ لوگ مفت کہتے ہیں۔عدالت کا یہ تبصرہ عدالتی افسران کی تنخواہوں اور پنشن کے سوال پر آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر ۲۰۱۵ءکی عرضی کی سماعت کے دوران کیا گیا۔
بنچ نے لاڈلی بہنا اسکیم اور دہلی اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی طرف اشارہ کیا۔جسٹس بی آر گوائی اور اے جی مسیح کی بنچ نے اٹارنی جنرل کی عرضی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ریاستوں کے پاس ان لوگوں کیلئے تمام پیسہ ہے جو کوئی کام نہیں کرتے ہیں،جب ہم مالی رکاوٹوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں اس کو بھی دیکھنا ہوگا۔ الیکشن آئیں، آپ لاڈلی بہنا اور دیگر نئی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں جہاں آپ مقررہ رقم ادا کرتے ہیں۔دہلی میں کسی نہ کسی پارٹی کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ۲۵۰۰؍ روپئے ادا کریں گے۔اس کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس قسم کے اعلانات کئے ہیں، جس میں نقد رقم دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: جسٹس شیکھر یادو کے مواخذہ کو چیلنج کرنے والی پٹیشن خارج

اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ وعدہ خلافی کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے، اور ریاستوں کے مالی بوجھ کے تعلق سے حقیقی خدشات پر غور کیا جانا چاہئے۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ ضلعی ججوں کو دی جانے والی پنشن بہت کم ہے۔۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے فیصلہ کیا کہ حکومت کی جانب سے اہل اور مستحق افراد میں رقم کا براہ راست تعلق ریاستی پالیسی سے ہے، اس میں عدالت کا عمل دخل نہیں ہے۔اگست ۲۰۲۲ء میں عدالت نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفت اشیاء کی تقسیم پر پابندی کی درخواست کرنے والی عرضی کو تین ججوں کی بنچ کو بھیج دیاتھا۔دریں اثناء کئی سیاسی جماعتوں نے عدالت میں یہ دلیل دیتے ہوئے عرضی داخل کی کہ سماجی بہبود کی اسکیموں کو مفت ریوڑی کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اکتوبر میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت ،اور الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وہ انتخابات کے دوران مفت اشیاء کی تقسیم کو چیلنج کرنے والی تازہ عرضی پر اپنا موقف واضح کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK