عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رائلٹی کوئی ٹیکس نہیں ہے اور مقننہ کو قانونی حیثیت حاصل ہے کہ وہ معدنیات پر مشتمل زمین پر ٹیکس عائد کرے۔
EPAPER
Updated: July 26, 2024, 12:28 PM IST | Agency | New Delhi
عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رائلٹی کوئی ٹیکس نہیں ہے اور مقننہ کو قانونی حیثیت حاصل ہے کہ وہ معدنیات پر مشتمل زمین پر ٹیکس عائد کرے۔
سپریم کورٹ نے۳۵؍ سال پرانے فیصلے کو بدلتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ رائلٹی ٹیکس نہیں ہے اور ریاستوں کو معدنیات اور کانوں پر ٹیکس لگانے کا حق ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ۹؍ رکنی آئینی بنچ نے مرکز اور مختلف کان کنی کمپنیوں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے آٹھ ایک کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے۱۹۸۹ء کی ۷؍ رکنی بنچ (انڈیا سیمنٹ لمیٹڈ بمقابلہ تمل ناڈو حکومت) کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ریاستوں کو ٹیکس لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس رشی کیش رائے، جسٹس ابھے ایس اوکا، جسٹس بی وی ناگرتھنا، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس منوج مشرا، جسٹس اجول بھویان، جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی آئینی بنچ نے یہ اہم فیصلہ سنایا لیکن جسٹس ناگرتھنا نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
یہ بھی پڑھئے: تلنگانہ : اقلیتوں کیلئے بجٹ مرکز ی وزارت کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوگیا!
آئینی بنچ نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز (ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ (مائنز ایکٹ) ریاستوں کو معدنی حقوق پر ٹیکس لگانے کے اختیار سے محروم نہیں کرے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اس اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رائلٹی کوئی ٹیکس نہیں ہے اور مقننہ کو قانونی حیثیت حاصل ہے کہ وہ معدنیات پر مشتمل زمین پر ٹیکس عائد کرے۔
جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ پارلیمنٹ کو معدنی حقوق کے تحت ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں ہے لیکن وہ اس حد کا تعین کر سکتی ہے جس پر (ریاست کی طرف سے) ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ منرل ایریا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور دیگر نے ۷؍ رکنی بنچ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ اودیشہ اور جھارکھنڈ وغیرہ نے دلیل دی تھی کہ آئین کے مطابق صرف ریاستوں کو ٹیکس لگانے کا حق ہے۔