صنعتی شہر کے مشہور شاعر صاؔلح ابن تابش پیر (۲۹؍ جولائی ۲۴ء) کو انتقال کرگئے۔
EPAPER
Updated: July 31, 2024, 2:56 PM IST | Mukhtar Adeel | Malegaon
صنعتی شہر کے مشہور شاعر صاؔلح ابن تابش پیر (۲۹؍ جولائی ۲۴ء) کو انتقال کرگئے۔
صنعتی شہر کے مشہور شاعر صاؔلح ابن تابش پیر (۲۹؍ جولائی ۲۴ء) کو انتقال کرگئے۔ منگل کی صبح ساڑھے ۱۱؍ بجے بڑاقبرستان میں اُن کے جسد خاکی کو سپردِ لحد کیا گیا۔ جلوس جنازہ ان کے مکان واقع عبداللہ نگر (بی) سے اٹھایا گیا اور حمیدیہ مسجد سے متصل جنازہ ہال میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ اس موقع پر سیکڑوں کی تعداد میں سوگواروں نے شرکت کی۔ پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر ۷۹؍ سال تھی۔
یہ بھی پڑھئے:ڈیم سے پانی چھوڑنے سے قبل تلنگانہ کو مہاراشٹر کو مطلع کرنا ہوگا
یکم مارچ ۱۹۴۵ء کو مالیگائوں میں پیدا ہونے والے صالح ابن تابش کا اصل نام محمد صالح محمد نذیر تھا۔ اُن کے والد محمد نذیر بھی شعر کہتے تھے اور تخلص تاؔبش تھا۔ والد صاحب سے ترغیب پاکر محمد صالح نے ۱۹۶۳ء میں شاعری کا میدان اختیار کیا اور علامہ وقارؔ حیدری کی شاگردی میں شعری سفر جاری رکھا۔ مالیگائوں میونسپل کارپوریشن اُردو اسکول میں ۴۰؍ برس تک تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ ۲۰۲۱ء میں ان کا شعری مجموعہ بنام ’اندر کا موسم‘ منظرعام پر آیا۔ صالح حضرت، جیسا کہ شہر کے لوگ اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے، نہ صرف یہ کہ بھرپور شعری صلاحیت کے حامل تھے بلکہ اُن کا ترنم بھی بلا کا تھا۔ مشاعروں میں بُلائے جاتے تھے مگر اُنہوں نے خود کو وقف ِ مشاعرہ نہیں کیا بلکہ ملازمت اور گھریلو ذمہ داریوں کو اولیت دی۔ اُن کی شناخت نعت گو شاعر کی بھی ہے۔
مرحوم کے فنی محاسن پر ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی نے کہا کہ ’’صاؔلح ابن تابش کی نعت گوئی محتاط وارفتگی کا حسین و جمیل مرقع ہے۔ بے جا خیال آرائی سے گریز کرتے تھے۔ انہوں نے انہی موضوعات کو اپنے کلام میں برتا جنہیں نعت کے شایاں سمجھا۔‘‘ اس سانحۂ ارتحال پرڈاکٹر اشفاق انجم، انصاری محمد رضاؔ، واحد ؔانصاری، الطاف ضیاءؔ اور غلام مصطفی اثرؔ صدیقی نے گہرے رنج وغم کا ظہار کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی ہے۔ یہ شعر بہتوں کے ذہن میں اُن کی یادگار بن کر رہے گا:دیکھ کر جرأت تعمیرنشیمن میری= برق آتی ہے، لرز تی ہے، گزر جاتی ہے