مشہور کرکٹر اور وکٹ کیپر سید کرمانی کی سوانح جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ،پر سنیل گاوسکر کا عمدہ تبصرہ ، کتاب میں کئی اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے
EPAPER
Updated: January 10, 2025, 10:24 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مشہور کرکٹر اور وکٹ کیپر سید کرمانی کی سوانح جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ،پر سنیل گاوسکر کا عمدہ تبصرہ ، کتاب میں کئی اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے
ماضی کے مشہور کرکٹراور ۱۹۸۳ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اہم رُکن سید کرمانی(سید مجتبیٰ حسین کرمانی) کی سوانح ’اسٹمپڈ (لائف بی ہائنڈ اینڈ بیانڈ دی ٹوینٹی ٹو یارڈس)‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سوانح کا مقدمہ مایہ ناز کرکٹر اور کرمانی کے قریبی دوست سنیل گاوسکر نے تحریر کیا ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ یہ کتاب ہر چند کہ انگریزی میں ہے لیکن سید کرمانی کی زندگی کے کئی دلچسپ پہلو ایسے ہیں جن پر اب تک روشنی نہیں پڑی تھی۔ عام قاری اور ان کے ہزاروں مداح بھی ان اچھوتے پہلوئوں کے بارے میں کم ہی جانتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ مشہور پبلشنگ ہائوس پینگوئن بکس نے اسے شائع کیا ہے جبکہ سوانح کی تیاری میں سید کرمانی کا ساتھ دیباشش سین گپتا اور دکشیش پاٹھک نے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹیم انڈیا کی بلے بازی سے زیادہ گیندبازی موضوع بحث
سنیل گاوسکر نے جو دیباچہ تحریر کیا ہے وہ نہ صرف سید کرمانی کو سچا خراج تحسین ہے بلکہ ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سنیل گاوسکر نے متعدد ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جن سے سید کرمانی کی شخصیت کا تجزیہ کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بطور وکٹ کیپر سید کرمانی آج کے دور کے کسی بھی وکٹ کیپر سے بہت آگے تھے۔ دھونی، ایڈم گلکرسٹ، کمار سنگاکارااور دیگر کا دور تو بہت بعد میں شروع ہوا اور ان سبھی کو اِن کی بلے بازی کی وجہ سے شہرت ملی لیکن کرمانی اصل وکٹ کیپر تھے۔ ‘‘ گاوسکر کے مطابق وہ میچ کے دوران کسی بھی کپتان یا گیند باز کے لئے نہایت کار آمد کھلاڑی تھے کیوں کہ وہ وکٹ کے پیچھے کھڑے ہوکر بلے باز کی کمزوریوں کو بہت جلد بھانپ لیتے تھے۔ اس معاملے میں ان کا مشاہدہ بہت زبردست تھا۔ انہیں یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ کس بلے باز کو کیسی لائن اور لینتھ پر گیند بازی کرنی ہے، کس فیلڈر کوکہاں رکھنا ہے اور اگر بلے باز جلد آئوٹ نہیں ہو رہا ہے تو کس گیند باز کو گیند سونپنی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کپتان اور گیند باز دونوں کو بہت اچھے مشورے دیتے تھے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ ہماری ٹیم میں کپتان کے دست راست بلکہ اہم اثاثہ تھے۔ ان کے مشورے کئی موقعوں پر ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ خاص طور پر ۱۹۸۳ء کے ورلڈ کپ میں جہاں ہم نے غیر متوقع فتح حاصل کی تھی۔ سنیل گاوسکر کے مطابق یہ کتاب ان سبھی نوجوان کرکٹرس کو پڑھنی چاہئے جو وکٹ کیپنگ میں اپنا کریئر بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ ہندوستان کو سید کرمانی سے بہتر وکٹ کیپر اب تک نہیں ملا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۹۷۵ء تا ۲۰۲۳ء: ورلڈ کپ فاتحین پر ایک نظر
واضح رہے کہ سید کرمانی کی پیدائش چنئی میں ۱۹۵۱ء میں ہوئی تھی۔ ان کی والدہ چنئی کی تھیں جبکہ والد کا تعلق حیدر آباد سے تھا لیکن سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ان کا تبادلہ بنگلور کردیا گیا تھا جہاں سید کرمانی نے اپنا بچپن گزارا ہے اور یہیں سےپہلے ریاستی ٹیم کے لئے اور پھر ٹیم انڈیا کے لئے منتخب ہوئے۔ وکٹ کیپنگ گلوز سے ان کا پہلا تعلق اس دور میں قائم ہوا جب وہ جیا محل علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ یہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے دوران ہمیشہ وکٹ کیپر بنادئیے جاتے تھے کیونکہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان میچوں کےدوران وہ دو چھوٹی چھوٹی اینٹیں ہاتھ میں اٹھالیتے تھے جو گلوز کا کام دیتی تھیں۔ سید کرمانی کے مطابق انہی اینٹوں کو اٹھانے اور ہاتھ میں کافی دیر تک پکڑے رہنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ ابتدائی طور پر کافی مضبوط ہو گئے تھے اور اس کی وجہ سے ہی انہیں وکٹ کیپنگ میں کافی مدد ملی۔ سید کرمانی کے مطابق وکٹ کیپنگ کا کام اعلیٰ قسم کے نظم و ضبط اوریکسوئی کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر بال نہایت دھیان سے دیکھنی پڑتی ہےاور آپ کے جسم کی تمام حرکات و سکنات کا پورا مرکز وہ گیند ہی ہوتی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہمارے دور میں جو ٹیسٹ کرکٹ زیادہ کھیلا جاتا تھا تو ایک وکٹ کیپر کو کتنی گیندوں کو مسلسل دھیان سے دیکھنا پڑتا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں نظم و ضبط اور یکسوئی لانے کا کام ان کے والد سید فدا حسین کرمانی کی مہربانیوں اور توجہ کا نتیجہ ہے۔ وہ روزانہ صبح فجر سے پہلے اٹھ جاتے تھے۔ مجھے اور میرے بھائیوں کو لےکر فجر کی نماز پڑھنے جاتے اور پھر ہم سے روزانہ تیز چہل قدمی کرواتے۔ اس کے بعد ہم سبھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ انہوں نے ہماری زندگی کا انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ صحت کا دھیان رکھو اور اسے برقرار رکھنے کے لئے سو جتن کرنے پڑیں تو وہ کرو کیونکہ صحت ابھی بہتر ہوگی توعمر رسیدگی میں کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔ اپنے پیسوں کی بچت کرنا سیکھو اور جب ٹھیک ٹھاک کمانے لگ جائو تو فوراً شادی کرلو اور فیملی بڑھائو کیونکہ عمر کے آخری پڑائو میں انسان کو بھرے پرے خاندان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
سید کرمانی اپنے قریبی دوست اور ٹیم کے کپتان رہ چکے کپل دیو کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این
سید کرمانی نے اپنی سوانح ’اسٹمپڈ‘ میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ تیسری جماعت میں تھے تو انہیں باکسنگ کے میچ میں شرکت کا موقع ملا۔ چونکہ ان کا گلووز سے لگائو ابتدائی اسٹیج میں تھا اس لئے یہ والہانہ بھی تھا اور وہ اس کے لئے کوئی بھی گلووز پہننے کے لئے تیار رہتے تھے۔ جب انہیں اسکول میں باکسنگ میچ میں شرکت کے لئے کہا گیا اور بتایا گیا کہ اس کے لئے انہیں گلووز پہننے کو ملیں گے تو انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، فوراً تیار ہو گئے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ بہت آسانی سےابتدائی رائونڈس پار کرتے ہوئے سیمی فائنل میں پہنچ گئے۔ چونکہ وہ عیسائی مشنری اسکول میں زیر تعلیم تھے اس لئے ان کا مقابلہ اینگلو انڈین طالب علم شیکلٹن سے ہوا۔ انہوں نے اسے ۳؍ سے ۴؍ مکّوں میں ہی زیر کردیا۔
فائنل مقابلہ میں بھی ایک اور اینگلو انڈین طالب جان ڈائس سے مقابلہ ہوا۔ انہوں نے بہت سخت مقابلہ کیا۔ جان بھی کافی سخت جان تھا لیکن انہیں لگا کہ وہ اس پر حاوی ہی رہے اور ہال میں موجود شائقین اور ججوں کے ردعمل سے بھی انہیں اندازہ ہو ا کہ وہ فاتح ہیں لیکن آخر میں ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب جان ڈائس کو فاتح قرار دے دیا گیا جبکہ انہیں ’بیسٹ لوزر (بہترین مفتوح ) کا خطاب دیا گیا۔ سید کرمانی کے مطابق ان کے ٹیچر اور بڑے بھائی دونوں نے بعد میں بتایا کہ مقابلہ تو میں نے بہت خوب کیا لیکن ایک سے دو جگہ فائول (کراس شاٹس ) کی وجہ سے میرے پوائنٹس کم ہو گئے اور جان کو فاتح قرار دے دیا گیا۔
کرمانی اسکول کی ٹیم میں منتخب ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ جونیئر ٹیم میں ہی کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک دن سینئر ٹیم کے کوچ کے کے تاراپور نے مجھے سینئر ٹیم کے لئے منتخب کرلیا اور وجہ یہ بتائی کہ ان کے پاس اچھا وکٹ کیپر نہیں ہے اور تم کو میں نے جونیئر ٹیم میں وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تم اپنے پاس سے گیند کو گزرنے بھی نہیں دیتے ہو اس لئے ہمیں ایسے ہی کیپر کی ضرورت ہے۔ تم اب سینئر ٹیم میں کھیلو گے۔ اسی ٹیم کے ساتھ کھیلتے ہوئے کرمانی نے پہلی مرتبہ انگلینڈ کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بلے بازی کے جوہر بھی دکھائے اور ۱۰۴؍ رنوں کی بہترین اننگز کھیلی تھی۔
کرمانی نے اس دورے کی یاد داشت میں لکھا ہے کہ ان کے لئے انگلینڈ میں ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں سے ملاقات یاد گار رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی انہیں یاد ہے کہ جب ان کی ٹیم کو لارڈس کرکٹ گرائونڈ کے ’لانگ ہال ‘ میں مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں ٹیم انڈیا کے کپتان اور اسٹائلش بلے باز منصور علی خان پٹودی سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان سے ملنا ہم جونیئر کھلاڑیوں کے لئے کسی خواب کے پورے ہونے جیسا تھا۔ اس ٹیم میں فرخ انجینئر، بی ایس چندر شیکھر، ایراپلی پرسنا اور وی سبرامنیم شامل تھے۔ سبرامنیم بعد میں میرے پہلے کپتان بھی بنے جب میں نے رنجی ٹرافی کھیلنا شرو ع کیا۔ ایک اور واقعہ کی طرف کرمانی نے اشارہ کیا ہے کہ ۷۰ء کی دہائی میں جب بی سی سی آئی گائوں گائوں کرکٹ کو مقبول بنانے میں مصروف تھی تب لوکل میچ ’ میٹ ‘ کی وکٹ پر ہوتے تھے۔ یہ وکٹ عام طور پر ٹاٹ کے کپڑے کی ہوتی ہے۔ اس پر کیپنگ بہت مشکل کام ہے کیوں کہ گیند کے اچھال اور اس کی رفتار کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
سید کرمانی نے ٹیم انڈیا میں منتخب ہونے کا قصہ بھی شیئر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے انہیں اجیت واڈیکر کی کپتانی میں انگلینڈ جانے والی ٹیم کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ حالانکہ انہیں ٹیم انڈیا کے میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملا لیکن دورے پر کائونٹی میچ کھیلنے کے لئے انہیں منتخب کیا جاتا تھا۔ یہ تجربات انہیں بہتر کیپر بنانے میں کافی کام آئے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ اس دورے پر انہوں نے انگلش وکٹ کیپر ایلن ناٹ سے، جنہیں کرکٹ کا اب تک بہترین وکٹ کیپر تسلیم کیا جاتا ہے، کافی کچھ سیکھا۔ وہ ان سے مسلسل گفتگو کرتے رہتے تھے اور ان کی کیپنگ کی صلاحیت پر رشک کرتے تھے۔ ایلن ناٹ سے گفتگو کے دوران کئی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں جو آگے بہت کام آئیں۔ کرمانی جو میدان پر اپنے ساتھی کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جانے جاتے ہیں، نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی ہی سیریز میں جو نیو زی لینڈ کے خلاف تھی، وکٹ کیپنگ کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا۔ انہوں نے ایک اننگز میں ۶؍ کیچ لے کر یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے جو چھٹا کیچ پکڑا تھا وہ گیند آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔
۱۹۸۳ء کی شاندار ورلڈ کپ فتح کے بارے میں کرمانی نے پورا ایک باب مختص کیا ہے جس انہوں نے بتایا ہے کہ کیسے پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز جیسی اپنے دور کی انتہائی مضبوط ٹیم کو شکست دینے کی وجہ سے ٹیم کا حوصلہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ ہر میچ سے قبل کپتان کپل دیو ٹیم میٹنگ میں جو گفتگو کرتے تھے اس سے ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہر کھلاڑی اہم ہے اور ہم یہاں ہر میچ جیتنے آئے ہیں۔ کپل دیو حالانکہ ٹیم میں جونیئر تھے لیکن انہوں نے جب پہلی مرتبہ ٹیم میٹنگ میں گفتگو کی تھی تو کہا تھا کہ ’’ یہاں مجھ سے ۶؍ سے ۷؍ کھلاڑی کافی سینئر ہیں اور مجھے انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کرکٹ کیسے کھیلا جاتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ کھلاڑی میچ جیتنے اور ٹورنامنٹ میں بہترین مظاہرہ کرنے میں میرا ساتھ دیں گے۔ ان کی مدد کے بغیر نہ ہماری گاڑی چل سکے گی اور نہ ہم کوئی ایک میچ بھی جیت سکیں گے۔ ‘‘ کرمانی کے مطابق یہ ٹیم میٹنگیں ہماری حکمت عملی کی تیاری کی بنیاد بن گئی تھیں۔ ان میٹنگوں میں ہم مخالف ٹیم کی طاقت اور کمزوریوں پر گفتگو کرتے تھے۔ ساتھ ہی بلے بازی اور گیند بازی کی حکمت عملی کیا ہو گی اس پر کافی دیر تک بحث ہوتی تھی۔ ٹیم کے تقریباً تمام کھلاڑی اپنی اپنی جانب سےمشورے دیتے تھے۔ ٹیم میٹنگوں میں کپل نے وہ ماحول بنادیا تھا کہ ہر کھلاڑی اپنی رائے اس اعتماد کے ساتھ پیش کرتا تھا کہ اس کی رائے ہی سب سے اہم ہے۔ اکثر یہ میٹنگ ہوٹل سے میدان تک جانے والی بس میں بھی ہوتی تھی لیکن یہ ورلڈ کپ مہم میرے لئے ہمیشہ یادگار اس اننگز کے لئے رہے گی جب میں نے کپل کا ساتھ دیتے ہوئے ورلڈ ریکارڈ پارٹنر شپ کی تھی اور ٹیم کو نہ صرف بحران سے نکالا تھا بلکہ اسے سیمی فائنل تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
مشہور کرکٹر سید کرمانی جنہوں نے وکٹ کیپنگ میں کئی سنگ میل قائم کئے۔ تصویر: آئی این این
مشہور وکٹ کیپر سید کرمانی کی سوانح ’ اسٹمپڈ ‘ میں انہوں نے جس قصے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور جسے پوری تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے وہ قصہ ۱۹۸۳ء کے ورلڈ کپ میں زمبابوے کے خلاف ہونے والا میچ کا ہے۔ یہ میچ جیتنا ٹیم کے لئے بہت ضروری تھا کیوں کہ سیمی فائنل میں پہنچنے کا پورا دار و مدار اس میچ میں فتح پر تھا۔
کرمانی لکھتے ہیں کہ ہر چند کہ یہ میچ اس وقت ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ۲؍ ٹیموں کے درمیان تھا لیکن اتفاق ایسا رہا کہ یہ اس پورے ورلڈ کپ کا سب سے سنسنی خیز اور شاندار میچ ثابت ہوا۔ اس میچ کے اتار چڑھائو اتنے زیادہ رونگٹےکھڑے کرنے والے تھے کہ آج کے دور کے ٹی ٹوینٹی میں بھی ایسا کم ہی ہوتا ہو گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اس میچ کا فوٹیج آج تک دستیاب نہیں ہے کیوں کہ اسی میچ سے قبل بی بی سی ملازمین نے اپنی تنخواہوں کو لے ہڑتال کردی تھی اس لئے میچ کی براہ راست نشریات نہیں ہو سکی تھیں۔ دنیا بھر کے مداحوں اور ہندوستان کے کروڑوں مداحوں کو ریڈیوکی کمنٹری پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔
کرمانی کے مطابق میچ کے ابتدائی اوورس کی شروعات اچھی ہوئی اور میں اسی لئے بہت اطمینان سے تیار ہو رہا تھا کیوں کہ میرا نمبر بلے بازی کے لئے ساتویں بلے باز کے آئوٹ ہونے کے بعد ہی آتا تھا۔ اس لئے میں بہت سکون سا اپنے کام کررہا تھا لیکن تبھی ڈریسنگ روم کے باہر سے کسی نے آواز دی ’’ کرّی جلدی سے پیڈاَپ کرو، تمہارا نمبر آسکتا ہے۔ ‘‘ مجھے لگا کہ کوئی مذاق کررہا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد ایک ریزرو کھلاڑی نے مجھے زور سے ڈانٹنے کے انداز میں کہا کہ ’’کرّی اب تک تیار نہیں ہوا ؟ پیڈ اپ کر تیرا نمبر آگیا ہے۔ ‘‘تب مجھے احساس ہوا کہ میچ میں ہماری حالت خراب ہو گئی ہے۔ ٹیم کا اسکور ۱۷؍ رنوں پر ۵؍ وکٹ ہو گیا تھا اور مجھے کبھی بھی بلے بازی کے لئے جانا پڑسکتا تھا۔ میں نے پیڈ پہنے، گلووز پہنے اور بیٹ ہاتھ میں لے کر تیار ہو گیا۔ لیکن اس دوران کپل دیو نے نہایت بے جگری سے کھیلتے ہوئے ٹیم کا اسکور ۱۴۰؍ تک پہنچایا۔ تب کہیں جاکر میری بلے بازی کا نمبر آیا۔
میں جب کریز پر پہنچا تو ٹیم کے ۸؍ کھلاڑی ۱۴۰؍ پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ کپل دیو میرے پاس آئے اور کہا کہ ’’ کرّی بھائی، ہمارے پاس اب بھی ۳۰؍ اوور س باقی ہیں اور آپ جانتے ہو کیا کرنا ہے۔ ‘‘ میں نے انہیں جواب دیا آپ گھبرائو نہیں میں اپنا بہترین مظاہرہ کروں گا، ہم ایسے ہی نہیں مریں گے، اگر مرنا ہی ہے تو مار کر مریں گے۔ میں آپ کو زیادہ سے زیادہ اسٹرائک دوں گا باقی کا کام آپ جانیں۔
کرمانی لکھتے ہیں کہ میں اوور کی صرف ایک گیند کھیلتا اور ایک رن لے کر کپل دیو کو اسٹرائک دے دیتا۔ اس کے بعد کپل کا بلہ ہوتا اور گیند بائونڈری لائن کے پار نظر آتی۔
ہم نے پورے ۳۰؍ اوور ایسے ہی کھیلے۔ ۱۲۶؍ رن کی پارٹنر شپ کی۔ میرا اسکور صرف ۲۴؍ رن تھا لیکن وہ کتنا قیمتی تھا یہ میں اور کپل ہی جانتے تھے۔ کپل نے اس میچ میں ورلڈ ریکارڈ اننگز کھیل کر۱۷۵؍رن بنائے تھے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ کپل دیو کی اتنی شاندار اننگز کو میں نے اپنی آنکھوں سے، وہ بھی نان اسٹرائیک اینڈ پر کھڑے رہ کر، بلکہ اس اننگز میں میرا بھی کچھ نہ کچھ تعاون رہا۔ ہم نے ۲۶۶؍ رن بنائے اور زمبابوے کو ۲۳۵؍ رن پر آئوٹ کرکے میچ ۳۱؍ رنوں سے جیت لیا۔ اس جیت سے ہمارے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ ہم نے سیمی فائنل میں انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو اسکے گھریلو میدان پر نہایت آسانی سے شکست دیدی۔ کرمانی کے مطابق فائنل میں ہمیں ویسٹ انڈیز نامی پہاڑکو سَر کرنا تھا۔ حالانکہ گروپ اسٹیج میں ہم ویسٹ انڈیز کوہراچکے تھے لیکن فائنل کی بات کچھ اور تھی مگر ہم سبھی کے ذہن میں یہی بات تھی کہ یہاں سے ہم کچھ کھوئیں گے نہیں ۔ پورا دبائو ویسٹ انڈیز پر ہو گا اور ہم اپنی مرضی کے مطابق کرکٹ کھیل سکیں گے۔ کلائیو لائیڈ نےٹاس جیت کر ہمیں پہلے بلے بازی کی دعوت دی۔ ویسٹ انڈیز کی طاقتور گیند بازی کے سامنے ہم صرف ۱۸۳؍ رن کی بناسکے۔ سری کانت نے سب سے زیادہ رن بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی بلے بازی آئی تو ہمیں معلوم تھا کہ یہ اسکور ان کی بلے بازی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن ہمارے دلوں کے گوشے میں یہ بات بھی تھی کہ ہم نے انہیں گروپ میچ میں ہرایا ہے اور اب بھی کرسکتے ہیں۔ گورڈن گرینج اور ڈیسمنڈ ہینس نے شاندار شروعات کی۔ ہمیں لگا کہ یہ دونوں ہی میچ جتا دیں گے تبھی بلوندر سندھو نے پہلا وکٹ لے کر ہمیں تھوڑی راحت پہنچائی لیکن یہ بہت جلد کافور ہو گئی کیونکہ رچرڈس کریز پر آگئے۔ انہوں نے ہینس کیساتھ جس انداز میں بلے بازی کرنا شروع کی اس سے ہمیں لگا کہ میچ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ تبھی مدن لال کی ایک گیند کو پُل کرنے کی کوشش میں رچرڈس کپل دیو کو تاریخی کیچ تھمابیٹھے جسکے بعد ویسٹ انڈیز کازوال شروع ہو گیا۔ ہمارے گیند بازوں اور فیلڈروں نے شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز نامی پہاڑ سَر کرلیا۔ ورلڈ کپ جیتنا اور وہ بھی تب جب آپ کو کوئی گنتی میں بھی نہیں لے رہا ہوایسی سرشاری کو جنم دیتا ہے جسکا بیان مشکل ہے۔ اس جیت کے باوجود ورلڈ کپ میں سب سے یاد گار میچ میرے لئے زمبابوے کے خلاف ہی تھا۔ واضح رہے کہ کرمانی کی یہ سوانح’پینگوئن بکس‘ نے شائع کی ہے جو ان کی ویب سائٹ سے آن لائن بھی منگوائی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں ایسے کئی قصے ہیں جو اب تک پردہ اخفاء میں تھے۔ کرمانی نے کتاب میں کئی جگہ اس بات کاذکر کیا ہے لیکن ہلکے پھلکے انداز میں کہ ان کے نام کی وجہ سے انہیں ابتدا میں تعصب کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو پھر کوئی انہیں نام کی وجہ سے نشانہ بنانے کی ہمت نہیں کرسکا۔