مشہور کرکٹر اور وکٹ کیپر سید کرمانی کی سوانح جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ،پر سنیل گاوسکر کا عمدہ تبصرہ ، کتاب میں کئی اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے
EPAPER
Updated: January 08, 2025, 4:58 PM IST | Staff Reporter | Mumbai
مشہور کرکٹر اور وکٹ کیپر سید کرمانی کی سوانح جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ،پر سنیل گاوسکر کا عمدہ تبصرہ ، کتاب میں کئی اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے
ماضی کے مشہور کرکٹراور ۱۹۸۳ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اہم رُکن سید کرمانی(سید مجتبیٰ حسین کرمانی) کی سوانح ’اسٹمپڈ (لائف بی ہائنڈ اینڈ بیانڈ دی ٹوینٹی ٹو یارڈس)‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سوانح کا مقدمہ مایہ ناز کرکٹر اور کرمانی کے قریبی دوست سنیل گاوسکر نے تحریر کیا ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ یہ کتاب ہر چند کہ انگریزی میں ہے لیکن سید کرمانی کی زندگی کے کئی دلچسپ پہلو ایسے ہیں جن پر اب تک روشنی نہیں پڑی تھی۔ عام قاری اور ان کے ہزاروں مداح بھی ان اچھوتے پہلوئوں کے بارے میں کم ہی جانتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ مشہور پبلشنگ ہائوس پینگوئن بکس نے اسے شائع کیا ہے جبکہ سوانح کی تیاری میں سید کرمانی کا ساتھ دیباشش سین گپتا اور دکشیش پاٹھک نے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹیم انڈیا کی بلے بازی سے زیادہ گیندبازی موضوع بحث
سنیل گاوسکر نے جو دیباچہ تحریر کیا ہے وہ نہ صرف سید کرمانی کو سچا خراج تحسین ہے بلکہ ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سنیل گاوسکر نے متعدد ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جن سے سید کرمانی کی شخصیت کا تجزیہ کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بطور وکٹ کیپر سید کرمانی آج کے دور کے کسی بھی وکٹ کیپر سے بہت آگے تھے۔ دھونی، ایڈم گلکرسٹ، کمار سنگاکارااور دیگر کا دور تو بہت بعد میں شروع ہوا اور ان سبھی کو اِن کی بلے بازی کی وجہ سے شہرت ملی لیکن کرمانی اصل وکٹ کیپر تھے۔ ‘‘ گاوسکر کے مطابق وہ میچ کے دوران کسی بھی کپتان یا گیند باز کے لئے نہایت کار آمد کھلاڑی تھے کیوں کہ وہ وکٹ کے پیچھے کھڑے ہوکر بلے باز کی کمزوریوں کو بہت جلد بھانپ لیتے تھے۔ اس معاملے میں ان کا مشاہدہ بہت زبردست تھا۔ انہیں یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ کس بلے باز کو کیسی لائن اور لینتھ پر گیند بازی کرنی ہے، کس فیلڈر کوکہاں رکھنا ہے اور اگر بلے باز جلد آئوٹ نہیں ہو رہا ہے تو کس گیند باز کو گیند سونپنی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کپتان اور گیند باز دونوں کو بہت اچھے مشورے دیتے تھے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ ہماری ٹیم میں کپتان کے دست راست بلکہ اہم اثاثہ تھے۔ ان کے مشورے کئی موقعوں پر ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ خاص طور پر ۱۹۸۳ء کے ورلڈ کپ میں جہاں ہم نے غیر متوقع فتح حاصل کی تھی۔ سنیل گاوسکر کے مطابق یہ کتاب ان سبھی نوجوان کرکٹرس کو پڑھنی چاہئے جو وکٹ کیپنگ میں اپنا کریئر بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ ہندوستان کو سید کرمانی سے بہتر وکٹ کیپر اب تک نہیں ملا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۹۷۵ء تا ۲۰۲۳ء: ورلڈ کپ فاتحین پر ایک نظر
واضح رہے کہ سید کرمانی کی پیدائش چنئی میں ۱۹۵۱ء میں ہوئی تھی۔ ان کی والدہ چنئی کی تھیں جبکہ والد کا تعلق حیدر آباد سے تھا لیکن سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ان کا تبادلہ بنگلور کردیا گیا تھا جہاں سید کرمانی نے اپنا بچپن گزارا ہے اور یہیں سےپہلے ریاستی ٹیم کے لئے اور پھر ٹیم انڈیا کے لئے منتخب ہوئے۔ وکٹ کیپنگ گلوز سے ان کا پہلا تعلق اس دور میں قائم ہوا جب وہ جیا محل علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ یہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے دوران ہمیشہ وکٹ کیپر بنادئیے جاتے تھے کیونکہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان میچوں کےدوران وہ دو چھوٹی چھوٹی اینٹیں ہاتھ میں اٹھالیتے تھے جو گلوز کا کام دیتی تھیں۔ سید کرمانی کے مطابق انہی اینٹوں کو اٹھانے اور ہاتھ میں کافی دیر تک پکڑے رہنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ ابتدائی طور پر کافی مضبوط ہو گئے تھے اور اس کی وجہ سے ہی انہیں وکٹ کیپنگ میں کافی مدد ملی۔ سید کرمانی کے مطابق وکٹ کیپنگ کا کام اعلیٰ قسم کے نظم و ضبط اوریکسوئی کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر بال نہایت دھیان سے دیکھنی پڑتی ہےاور آپ کے جسم کی تمام حرکات و سکنات کا پورا مرکز وہ گیند ہی ہوتی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہمارے دور میں جو ٹیسٹ کرکٹ زیادہ کھیلا جاتا تھا تو ایک وکٹ کیپر کو کتنی گیندوں کو مسلسل دھیان سے دیکھنا پڑتا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں نظم و ضبط اور یکسوئی لانے کا کام ان کے والد سید فدا حسین کرمانی کی مہربانیوں اور توجہ کا نتیجہ ہے۔ وہ روزانہ صبح فجر سے پہلے اٹھ جاتے تھے۔ مجھے اور میرے بھائیوں کو لےکر فجر کی نماز پڑھنے جاتے اور پھر ہم سے روزانہ تیز چہل قدمی کرواتے۔ اس کے بعد ہم سبھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ انہوں نے ہماری زندگی کا انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ صحت کا دھیان رکھو اور اسے برقرار رکھنے کے لئے سو جتن کرنے پڑیں تو وہ کرو کیونکہ صحت ابھی بہتر ہوگی توعمر رسیدگی میں کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔ اپنے پیسوں کی بچت کرنا سیکھو اور جب ٹھیک ٹھاک کمانے لگ جائو تو فوراً شادی کرلو اور فیملی بڑھائو کیونکہ عمر کے آخری پڑائو میں انسان کو بھرے پرے خاندان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔