• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تھائی لینڈ: مسلم مظاہرین کے قتل عام میں ریاستی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ خارج

Updated: October 28, 2024, 10:12 PM IST | Bangkok

اپریل ۲۰۰۴ء میں ہوئے ’’تک بائی قتل عام‘‘ کے متاثرین کے اہل خانہ نے ۷ ؍فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں پر قتل، اقدام قتل اور غیر قانونی حراست کے الزامات عائد کئے تھے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس معاملہ میں کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جنوبی تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے ۲۰۰۴ء میں ۸۵ مسلم مظاہرین کے قتل کے مقدمہ میں سابق ریاستی حفاظتی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ خارج کردیا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس معاملہ میں کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اپریل ۲۰۰۴ء میں ہوئے "تک بائی قتل عام" کے متاثرین کے اہل خانہ نے ۷ فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں پر قتل، اقدام قتل اور غیر قانونی حراست کے الزامات لگائے تھے۔ نارتھیواٹ صوبائی عدالت نے اگست میں اس کیس کو باضابطہ طور پر قبول کیا تھا۔ فرد جرم کیلئے کافی شواہد موجود ہونے کے باوجود عدالت نے کہا کہ وہ مقدمہ کو آگے بڑھانے سے قاصر ہے کیونکہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں نہیں لایا گیا۔ نتیجتاً، ۲۰ سالہ حدود کا قانون جمعہ کو ختم ہوگیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ اس کا حکم مشتبہ افراد کے خلاف الزامات کو برخاست نہیں کرتا کیونکہ ملزمین کبھی قانونی کارروائی کے دائرے میں نہیں آئے بلکہ ۲۰ سالہ حدود کا قانون کی میعاد ختم ہونے تک فرار تھے۔ سابق فورتھ آرمی ریجن کے کمانڈر اور قتل عام کے ملزم پیسال وتناونگکیری، حکمراں فیو تھائی پارٹی کے قانون ساز تھے لیکن اگست میں فرد جرم داخل کئے جانے کے بعد وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک فرار ہوگئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دیگر ملزمین بھی فرد جرم عائد کرنے کے بعد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکی ووٹروں کو انتخابات کے بعد تشدد، نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں پرتشویش: سروے

واضح رہے کہ ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو ہزاروں مظاہرین، صوبہ نارتھیوات کے ضلع تاک بائی کے پولیس اسٹیشن میں جمع ہوئے اور ان ۶ مسلمان مردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں کئی دن قبل حراست میں لیا گیا تھا۔ ۷ مظاہرین کو موقع پر گولی مار دی گئی اور ۱ ہزار ۳۰۰ افراد کو بے بس کرکے ٹرک پر لاد کر لے جایا گیا جس دوران ۷۸ افراد کچلنے یا دم گھٹنے سے ہلاک ہوچکے تھے اور متعدد معذور ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں نے گزشتہ ہفتے ایک بیان جاری کرکے مطالبہ کیا کہ حدود کا قانون ختم ہونے کے باوجود تحقیقات اور انصاف کے حصول کیلئے کوشش کو جاری رکھا جائے کیونکہ تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکامی، خود تھائی لینڈ کے حقوقِ انسانی کی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔ تھائی لینڈ کی وزیر اعظم پیٹونگٹرن شیناواترا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس کیس کو بڑھانا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے متاثرہ افراد سے باضابطہ معافی کی پیشکش کی اور کہا کہ ہم اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK