امریکی صدارتی انتخاب سے قبل اسوشی ایٹیڈ پریس اور این او آر سی نے ایک مشترکہ سروے کرایا ، جس کے تحت عوام میں انتخاب کے بعد سیاسی تشدد کے ذریعے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے اور اس کے امریکی جمہوریت پر ہونے والے اثرات کے تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 6:16 PM IST | Washington
امریکی صدارتی انتخاب سے قبل اسوشی ایٹیڈ پریس اور این او آر سی نے ایک مشترکہ سروے کرایا ، جس کے تحت عوام میں انتخاب کے بعد سیاسی تشدد کے ذریعے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے اور اس کے امریکی جمہوریت پر ہونے والے اثرات کے تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے۔
اسوشی ایٹیڈ پریس اور این اوآر سی نے ایک مشترکہ سروے کرایا، جس میں یہ عوامی رائے نکل کر سامنے آئی کہ عوام کو انتخاب کے بعد سیاسی تشدد کے ذریعے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے اور اس کے امریکی جمہوریت پر ہونے والے اثرات کے تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے۔اس خدشہ کی وجہ چار سال قبل ہوئے صدارتی انتخاب کے نتائج ہیں جس کے نتائج کو ڈونالڈ ٹرمپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے حامیوں نے واشنگٹن میں ہنگامہ کر دیا تھا تاکہ اقتدار کی پرامن منتقلی کو روکا جا سکے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی انتخابات۲۰۲۴ء: کملا ہیرس جیتیں تو تیسری عالمی جنگ یقینی:ڈونالڈ ٹرمپ
۱۰؍ میں سے ۴؍ رائے دہندگان کو زیادہ یا انتہائی تشویش ہے سیاسی تشدد پر۔اور تقریباً اتنے ہی لوگ انتخابی افسران کے ذریعے انتخابی نتائج میں رخنہ اندازی کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ایک تہائی رائے دہندگان اس قسم کی تشویش کو بے جاخیال کرتے ہیں۔واضح رہے کہ ٹرمپ نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کی شکست اسی وقت ہو سکتی ہے جب ان کے خلاف دھاندلی ہو گی۔ یہ حکمت عملی انہوں نے اس وقت بھی اپنائی تھی جب وہ پہلی بار ۲۰۲۰ء میں الیکشن ہارے تھے۔کئی رائے دہندگان کا ماننا ہے کہ ٹرمپ اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔جبکہ محض ایک تہائی رائے دہنگان یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کملا ہیرس اپنی شکست کو تسلیم کر لیں گے۔
۱۰؍ میں سے ۹؍ رائے دہندگان نے کہا کہ صدارتی انتخاب ہارنے والا ہر ریاست کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے اور قانونی چیلنجز حل ہونے کے بعد نتائج تسلیم کرنے کا پابند ہے۔ بشمول ۱۰؍ میں سے ۸؍ رپبلکن کے۔ لیکن صرف ایک تہائی رائے دہندگان کو توقع ہے کہ انتخاب ہارنے کے بعد ٹرمپ اپنی شکست قبول کر لیں گے۔ رپبلکن اور ڈیمو کریٹ اس معاملے پرانتہائی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ تشویش کملا ہیرس پر لاگو نہیں ہوتی۔۱۰؍ میں سے ۸؍ رائے دہنگان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کملا ہیرس انتخابی شکست کو قبول کر لیں گی۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ نے غیر قانونی طور پر مقیم ہندوستانی تارکین وطن کوملک بدر کردیا
رپبلکن اور ڈیمو کریٹ جمہوریت کو کمزو کرنے کے ذمہ دار کے سوال پر بھی بری طرح منقسم نظر آئے۔ لیکن زیادہ تراس بات کو قبول کرتے ہیں کہ امریکی جمہوریت بہت حد تک نومبر میں ظاہر ہونے والے صدارتی انتخابی نتائج پر منحصر ہوں گے۔ مجموعی طور پر رائے دہنگان کی نصف تعداد کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو وہ امریکہ میں جمہوریت کو ’’بہت کچھ ‘‘یا ـ’’کچھ ‘‘کمزور کر دیں گے، جبکہ ۱۰؍ میں سے ۴؍نے ہیرس کے بارے میں بھی یہی کہا۔ہر پارٹی کے ۱۰؍ میں سے ۹؍ووٹروں نے کہا کہ مخالف پارٹی کا امیدوار منتخب ہونے کی صورت میں وہ جمہوریت کو کم از کم کسی حد تک کمزور کر سکتا ہے۔صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ایک ریٹائرڈ کارکن کائے نے ٹرمپ کو آئین کیلئے ایک وجودی خطرہ قرار دیا۔ان کے مطابق ٹرمپ کے فاتح ہونےکی صورت میں ان پر وہ انتظامی شکنجہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل کی انتظامیہ پر تھا۔
یہ بھی پڑھئے: حزب اللہ کا۲۰؍ سے زائد اسرائیلی بستیوں کے مکینوں کوعلاقہ خالی کرنے کا انتباہ
ایریزونا سے تعلق رکھنے والی ۶۰؍سالہ ریپبلکن رائے دہندہ ڈیبرا اپوڈاکا نے کہا کہ یہ ہیرس ہیں جو جمہوریت کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے غیر ملکی امداد کو بہت زیادہ ترجیح دی ہے اور امریکی عوام کو نظر انداز کیا۔ہمارے ٹیکس ڈالر،ہم ہر جگہ بھیج رہے ہیں، یہ ڈالر ملک میں نہیں رکتے تو ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟تقریباً نصف رائے دہندگان کے خیال میں یہ امکان ہے کہ کوئی امیدوار الیکٹورل کالج جیت کرصدر بن سکتا ہے لیکن مقبول ووٹ سے محروم ہونا امریکی انتخابات میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔تقریباً ایک تہائی ریپبلکن کے مقابلے میں دو تہائی ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ الیکٹورل کالج مقبول ووٹوں کی تقسیم کا امکان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ۵۴؍ سالہ ڈیمو کریٹ ڈیبرا کے مطابق ٹکنالوجی کے دور میں ایک فرد ایک ووٹ کیوں نہیں ہو سکتا؟ انہوں نے الیکٹورل کالج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرمپ کو تیسری مرتبہ بھی وہائٹ ہاؤس پہنچا سکتا ہے، اگرچہ وہ تیسری مرتبہ بھی مقبول ووٹ حاصل نہ کر سکیں۔