• Sun, 17 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا شوشہ

Updated: May 09, 2024, 11:11 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کا ریسرچ پیپرعین انتخابات کے دوران جاری کیا گیا ، بی جے پی الیکشن جیتنے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ اپنانے پر مجبور، تیجسوی یادو نے پوچھا کہ’’ جب مردم شماری ہی نہیں ہوئی تو مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا ڈیٹا کہاں سے آیا ؟‘‘

The Muslim population in the country has always been a problem in the eyes of sectarians. Photo: INN
ملک میں مسلمانوں کی آبادی فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتی رہی ہے۔ تصویر : آئی این این

بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے کتنی بیتاب و بے چین ہے اس کا اندازہ گزشتہ کچھ دنوں سے وزیر اعظم مودی کے مسلمانوں کے تعلق سے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے لیکن جیت حاصل کرنے کے لئے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ بھی اپنائے گی اس کا اندازہ فی الحال نہیں تھا ۔ چونکہ بی جے پی کو یقین ہے کہ مسلمانوں کو کوسنے سے اسے ووٹ ملیں گے اس لئے عین انتخابی موسم میں جب چوتھے مرحلے کی انتخابی مہم عروج پر ہے، وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کا ایک ریسرچ پیپر منظر عام پر لایا گیا ہے جس میں یہ دعویٰ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں ۴۳؍ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندوئوں کی آبادی ۷؍ فیصد کم ہو گئی ہے۔  یہ ریسرچ۱۹۵۰ء سے ۲۰۱۵ء  کے درمیان آبادی کے ڈیٹا پر کی گئی ہے۔
ریسرچ پیپر میں کیاکہا گیا ہے؟
 اس متنازع پیپر میں کہا گیا ہے کہ پارسیوں اور جین کے علاوہ ملک کی تمام اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے  اور ان میں سب سے زیادہ اضافہ مسلمانوں کی آبادی میں ہواہے۔ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہندوئوں کی آبادی کا فیصد۱۹۵۰ء کے ۸۴ء۶؍ فیصد کے مقابلے میں ۲۰۱۵ء میں۷۸ء۰۶؍ فیصد رہ گیا ہے جبکہ اس کے برعکس ۱۹۵۰ء میں ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا فیصد ۹ء۸۴؍ تھا جو ۲۰۱۵ء میں ۱۴ء۰۹؍ تک پہنچ گیا تھا۔ اس دوران مسلمانوں کی آبادی ۴۳ ؍ فیصد کی رفتار سے بڑھی ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے چیئر مین وویک دیبرائے ہیں جبکہ اس کے ممبران میںسنجیو سانیال ، راکیشن موہن ، ڈاکٹر شینائے اور دیگر ممبران شامل ہیں۔رپورٹ میں حالانکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں اکثریتی آبادی میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں معمولی کمی آئی ہے اور یہی ٹرینڈ ہندوستان میں رہا ہے لیکن بی جے پی لیڈران اور وی ایچ پی نے رپورٹ کے اس حصے کو اچک لیا جس میں یہ تجزیہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نونیت رانا کی اسد الدین اویسی کو کھلی دھمکی، اویسی کا بھی جوابی حملہ

بی جے پی اوروی ایچ پی کو موقع مل گیا 
 اس تعلق سے بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی نے پریس کانفرنس کرکے یہ الزام عائد کیا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی وجہ کانگریس کی  منہ بھرائی کی پالیسیاں رہی ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر سہولت دی گئی جس سے ان کی آبادی بڑھی اور ہندوئوں کی آبادی میں کمی آگئی ۔ انہوں نے اس کے لئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا اور مطالبہ کیا کہ آبادی پر کنٹرول کرنے کے اقدامات ضروری ہیں اور اس کیلئے پالیسی بنائی جانی چاہئے۔  دوسری طرف وی ایچ پی لیڈر   ونود کمار بنسل نے زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں یہ ریکارڈ موجود ہے کہ جہاں مسلمان بڑھتے ہیں وہاں غیرمسلم کم  ہو جاتے ہیں۔ وہ وہاں سے بھاگ جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔ جب تک مسلمان اقلیت میں رہتے ہیں  مظلوم  ہونے کا بہانہ بناتے ہیں  یعنی  مظلوم ہونے  کا کارڈ کھیل کر اکثریت کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ  آبادی میں بھی اضافہ کریں گے اور غریبی، بے روزگاری اور ناخواندگی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیاد پر  ریزرویشن بھی چاہیں گے۔ ایک طرف ووٹ جہاد چلا رہے ہیں اور دوسری طرف آبادی کا جہاد چلا رہے ہیں۔ انہیں روکنا ضروری ہے اس لئے ہم سرکار نے آبادی پالیسی بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 
تیجسوی یادو نے آڑے ہاتھوں لیا 
 ہندو مسلم آبادی کے حوالے سے وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی رپورٹ  پر   بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈروں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے رپورٹ کو مسترد کردیا۔ انہوں نے سب سے پہلےیہ پوچھا کہ مردم شماری کے بغیر یہ کیسے طے ہوگیا کہ ہندو ؤںکی آبادی کم ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا الزام بھی لگایا۔آرجے ڈی لیڈر نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں ہندو مسلم جذبات کو ایک طرف رکھ کر قومی مسائل پر بات کرنی چا ہئے لیکن وزیر اعظم سے لے کر بی جےپی کا کوئی بھی لیڈر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اہم مسائل پر بات نہیں کررہا ہے بلکہ وہ اس رپورٹ پر سوال اٹھارہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پہلے یہ بتایا جائے کہ مردم شماری کب ہوئی اور کس رپورٹ کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK