• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آکسفورڈ یونیورسٹی میں جاری طلبہ کا اسرائیل مخالف احتجاجی کیمپ زبردستی ختم کروایا گیا

Updated: June 28, 2024, 12:37 PM IST | Agency | London

مذکورہ احتجاجی کیمپ ۶؍ مئی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے باہر لگایا گیا تھا، تاہم طلبہ احتجاج جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔

Old photo of a protest camp set up on the campus of Oxford University. Photo: INN
آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیمپس میں لگائے جانے والے احتجاجی کیمپ کی پرانی تصویر۔ تصویر : آئی این این

غزہ جنگ اور اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ کو زبردستی خاموش کرادیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی طلباو طالبات اور عوام کی جانب سے غزہ پٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل سے مکمل انخلاء اور اسرائیل سے منسلک کمپنیوں کے بائیکاٹ کیلئے احتجاج جاری ہے۔ 
 انتظامیہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے قائم کیا گیا احتجاجی کیمپ زبردستی ختم کر ادیا۔ مذکورہ احتجاجی کیمپ گزشتہ ماہ۶؍ مئی کو آکسفورڈ یوینورسٹی کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے باہر لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں اے آئی کا انقلاب دستک دینے والا ہے: اروندھتی بھٹاچاریہ

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کی جانب سے قائم شہداء کی یادگار پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا۔ اس حوالے سے طلبہ ایکشن گروپ کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ غزہ میموریل گارڈن کو مسمار کرنا قابل مذمت فعل ہے، غزہ میں نسل کشی پر خاموشی جرم ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے میڈیا کو اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طلبہ کے مطالبات پر نظرثانی کریں گے، تاہم طلبہ ایکشن گروپ نے حتمی فیصلے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی طلباء کے احتجاجی کیمپ میں ایک طبی خیمہ، اسنیک ایریا اور میٹنگ پوائنٹس بھی شامل تھے جن میں بہت سے فلسطینی جھنڈے اور پلے کارڈ آویزاں کیے گئے تھے۔ جن پر”نسل در نسل، مکمل آزادی تک“ جیسے نعرے درج تھے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والی خاتون فلسطینی صحافی کے نام سے منسوب ایک میڈیا روم اور ایک یادگار لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جسکا نام ممتاز فلسطینی شاعرہ ‘مصنفہ اور استاد رفعت الایریر کے نام پر رکھا گیا تھا جو غزہ میں فضائی حملے میں جاں  بحق ہوئی تھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK