میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق شدید بارش کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سیلاب کے باعث جمعہ کی شام تک سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر۷۴؍ ہو گئی ہےجبکہ ۸۹؍ افراد لاپتہ ہیں۔ یہاں تلاش اور بچاؤ کا کام جاری ہے۔
EPAPER
Updated: September 15, 2024, 7:00 PM IST | Naypyidaw
میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق شدید بارش کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سیلاب کے باعث جمعہ کی شام تک سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر۷۴؍ ہو گئی ہےجبکہ ۸۹؍ افراد لاپتہ ہیں۔ یہاں تلاش اور بچاؤ کا کام جاری ہے۔
میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق شدید بارش کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سیلاب کے باعث جمعہ کی شام تک سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر۷۴؍ ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تلاش اور بچاؤ کا کام جاری ہے اورجمعہ کی شام تک کم از کم۸۹؍ افراد لاپتہ ہیں۔ رواں سال ایشیا سے ٹکرانے والے سب سے طاقتور طوفان ’یاگی‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خراب موسم نے ویتنام اور تھائی لینڈ میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ دریاؤں میں طغیانی سے دونوں ممالک کے شہر زیر آب آ گئے ہیں۔ میانمار میں سیلاب کا آغاز گزشتہ پیر سے ہوا تھا اور جمعے کی صبح تک کم از کم۱۹؍ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ میانمار فروری ۲۰۲۱ء میں فوجی بغاوت کے بعد سے بدامنی کا شکار ہے اور تشدد نے غریب ملک کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیلی منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے: یو اے ای
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ طوفانی بارشوں نے دارالحکومت نیپیڈو کے ساتھ منڈلے، میگ وے اور باگو کے علاقوں کے علاوہ مشرقی اور جنوبی شان ریاستوں، مون، کایاہ اور کین ریاستوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ او سی ایچ اے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ وسطی میانمار اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں شان پہاڑیوں سے بہت سے نالے بہہ رہے ہیں۔ مزید ہلاکتوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، لیکن تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے اور فون اور انٹرنیٹ لائنوں کے بند ہونے کی وجہ سے معلومات جمع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ سرکاری میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ سیلاب سے پانچ ڈیم، چار پگوڈا اور۶۵؍ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ میانمار کی۵۵؍ ملین آبادی میں سے تقریبا ایک تہائی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے لیکن ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی جیسے بہت سے امدادی ادارے رسائی کی پابندیوں اور سیکوریٹی خطرات کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں کام نہیں کر سکتے۔