• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیل نے جبری نقل مکانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے: اقوام متحدہ

Updated: August 10, 2024, 9:32 PM IST | Jerusalem

اقوام متحدہ(یو این) کی جانب سے جاری کئے گئے ڈیٹا میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے غزہ کی ۲ء۳؍ ملین آبادی میں سے اکثریت کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ سیکڑوں فلسطینیوں نے بارہا نقل مکانی کی ہے جبکہ کئی فلسطینی ایسے بھی ہیں جو ہر ماہ ایک مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

Palestinian families on the move. Photo: X
فلسطینی خاندان نقل مکانی کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

اقوام متحدہ (یو این) کی جانب سے جاری کئے گئے ڈیٹا میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے غزہ کی ۳ء۲؍ ملین آبادی میں سے اکثریت کو انخلاء کے حکم کے ذریعے اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے جو مین کے چھوٹے سےٹکڑے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ یو این کے ڈیٹا کے مطابق غزہ میں ہر ۱۰؍ افراد میں سے ۹؍ افراد کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ فلسطینی،جنہیں موت اور زبردستی نقل مکانی کے درمیان کسی ایک چیز کو منتخب کرنا تھا، نے اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کی وجہ سے متعدد مرتبہ نقل مکانی کی ہے۔ خیال رہے کہ اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۴۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ ۹۲؍ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی جنگ کے دوران فلسطینی مشکلات کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تصویر: ایکس

کئی فلسطینی ہر ماہ میں ایک مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں
زبردستی نقل مکانی پر مجبور ہونا فلسطینیوں کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والی آزمائش بن گئی ہے۔ یو این کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ء سےاب تک کئی فلسطینیوں کو مہینے میں ایک بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ان علاقوںپر بھی حملے کئے ہیں جنہیں اس نے ’’سیف زون‘‘ قرار دیا تھا۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی فوج نے شمالی علاقے میں اپنا حملہ شروع کیا تھا جہاں غزہ کی آدھی سے زائد آبادی رہائش پذیرتھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: دلیپ کمار ’مغل اعظم‘ کے پریمیر میں کیوں نہیں گئے تھے؟ وجہ سائرہ بانو نے بتائی

شمال سے جنوب کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا
بعد ازیں اسرائیل نے شمالی غزہ میں رہائش پذیر ۴ء۱؍ ملین فلسطینیوں کو انخلاء کر کے جنوب کی جانب نقل مکانی کا حکم جاری کیا تھا جسے اسرائیل نے ’’سیف زون‘‘ قرار دیا تھا۔ وہ فلسطینی جو حملوں کے باوجود علاقہ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ، نے مجبوری میں اسپتالوں اور اسکولوں میں پناہ لی تھی۔ تاہم،۲۷؍ اکتوبر کو اسرائیلی فوج نےشمالی غزہ میں زمینی حملے کی شروعات کی تھی جس میں اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیاتھا۔ اس کے نتیجے میں اسکولوں اور اسپتالوں میں پناہ لئے ہوئے سیکڑوں فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: برازیل: ساؤ پاؤلو کے قریب طیارہ حادثہ میں ۶۱؍ مسافر جاں بحق، تحقیقات جاری

خان یونس انخلاءکا حکم
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے خان یونس کی جانب انخلاء کا حکم جاری کیا گیا تھا جو غزہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ یکم دسمبر ۲۰۲۳ء، کو اسرائیلی فوج نے خان یونس میں زمینی حملے کی شروعات کی تھی جہاں شمالی غزہ سے ہجرت کئے ہوئے فلسطینیوں نے بھی پناہ لی تھی۔ 

رفح، سیف زون اور زمینی حملہ  
فلسطینی، جنہوں نے شمالی غزہ اورخان یونس میں حملوں کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی، ہجرت کر کے رفح گئے تھے۔ رفح میں ناکافی عمارتیں ہونے کی وجہ سے سیکڑوں ہزاروں فلسطینی عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ رفح کی آبادی ، جو  ۲؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار تھی، بے گھر فلسطینیوں کے پناہ لینے کے بعد ۴؍ گنا دگنا یعنی ۴ء۱؍ملین ہو گئی تھی۔
خیال رہے کہ امریکی صدرجوبائیڈن نے بھی رفح میں اسرائیل کے فوجی آپریشن کی مذمت کی تھی۔ تاہم، اسرائیل نے۶؍ مئی کو رفح میں اپنے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھاجسے بائیڈن انتظامیہ نے ’’سرخ لکیر‘‘ قرار دیا تھا۔ اسرائیل کے رفح میں وحشیانہ حملوں کے بعد بھی امریکی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ’’سرخ لکیر ‘‘ پار نہیں کی ہے۔ 


المواسی کی جانب نقل مکانی کا حکم
اسرائیلی فوج، جس نے غزہ کے زیادہ تر حصے کو ’’جنگی زون‘‘ قرار دیا تھا، نے فلسطینیوں کو المواسی کی جانب انخلاءکا حکم جاری کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’’سیف زون‘‘ ہے۔ المواسی ،دیر البلاح، خان یونس اور رفح کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ اس علاقے میں انفراسٹرکچر نہیں ہے جبکہ یہاں تعمیرات بھی کم ہوئی ہیں۔ فلسطینی اسرائیل کے مسلسل حملوں کی وجہ سے المواسی میں عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ فلسطینی ریڈ کریسینٹ کے مطابق رفح میں زمینی حملوں کی شروعات کے بعد المواسی میں واحد خیمہ بھی خالی نہیں بچا ہے۔ غزہ میں درجہ حرارت میں اضافہ ، پانی اور غذا کی کمی کی وجہ سے متعدد فلسطینی المواسی جانے کے بجائے اپنے گھروں کے ملبے پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK