مرکزی حکومت نے سائبر جرائم کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں سخت کارروائی کرتے ہوئے تقریباً ۵ء۴ ؍ لاکھ ’’میول اکاؤنٹس‘‘ کو منجمد کردیا ہے۔ سائبر جرائم میں روپوں کو ٹرانسفر کرنے کیلئے ان اکاؤنٹس کا استعمال کیا جا رہا تھا۔
EPAPER
Updated: November 12, 2024, 6:27 PM IST | New Delhi
مرکزی حکومت نے سائبر جرائم کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں سخت کارروائی کرتے ہوئے تقریباً ۵ء۴ ؍ لاکھ ’’میول اکاؤنٹس‘‘ کو منجمد کردیا ہے۔ سائبر جرائم میں روپوں کو ٹرانسفر کرنے کیلئے ان اکاؤنٹس کا استعمال کیا جا رہا تھا۔
مرکزی حکومت نے سائبر جرائم کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں سخت کارروائی کرتے ہوئے تقریباً ۵ء۴؍ لاکھ ’’میول اکاؤنٹس‘‘ کو منجمد کردیا ہے۔ سائبر جرائم میں روپوں کو ٹرانسفر کرنے کیلئے ان اکاؤنٹس کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق، منجمد کئے گئے بیشتر اکاؤنٹس، اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی)، پنجاب نیشنل بینک، کینیرا بینک، کوٹک مہندرا بینک اور ایئرٹیل پیمنٹس جیسے سرکاری و غیر سرکاری بینکس سے تعلق رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ میول اکاؤنٹس دوسروں کے شناختی دستاویزات کا استعمال کرکے بنائے جاتے ہیں اور جعلساز چیک، اے ٹی ایم کارڈ اور ڈجیٹل سہولتوں کے ذریعہ روپے نکال لیتے ہیں۔ انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر (آئی فار سی)، جو مرکزی وزارت داخلہ کے تحت قائم کیاگیا ہے، نے دفترِ وزیراعظم (پی ایم او) کو سائبر جرائم کے بڑھتے واقعات کے متعلق تفصیلات فراہم کیں اور سسٹم کی کمزوریوں کی نشاندہی کی۔
یہ بھی پڑھئے: اتر پردیش: بجنور میں کار اور ٹرک کے درمیان تصادم میں دو افراد کی موت، ایک زخمی
آئی فار سی کے سٹیزن فائنانشیل سائبر فراڈز رپورٹنگ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ریکارڈز کے مطابق، تقریباً ۴۰ ؍ہزار میول اکاؤنٹس ایس بی آئی سے منسلک تھے جبکہ دیگر بینکوں میں بھی بڑی تعداد میں ایسے اکاؤنٹ بنائے گئے تھے۔ تین گھنٹے کی میٹنگ کے دوران، پی ایم او نے ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی پولیس کو تحقیقات میں تیز رفتاری لانے اور اکاؤنٹس کی نگرانی میں پائے جانے والے خلاء کو پر کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے علاوہ، ریزرو بینک آف انڈیا اور ڈپارٹمنٹ آف فائنانشیل سروسیز کو احتیاطی تدابیر کو بڑے پیمانے پر نافذ کرنے اور ان کھاتوں کو کھولنے میں بینک حکام کے ممکنہ کردار کی جانچ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ واضح رہے کہ رواں سال نیشنل سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل پر سائبر فراڈ کی تقریباً ایک لاکھ شکایتیں درج کی گئیں۔ ان کیسز میں تقریباً ۱۷ ہزار کروڑ روپے کی جعلسازی رپورٹ کی گئی۔