عدالت نے دہشت گردی کے ۲؍ مختلف مقدمات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کے خلاف فرد جرم عائد نہ کرنے پر انہیں ضمانت دی، ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ تفتیشی ایجنسی نےمقررہ مدت کے اندر چارج شیٹ داخل نہیں کی اور تفتیش کیلئے اضافی وقت طلب کرتے وقت ٹرائل کورٹ نے ملزمین کے اعتراضات کی سماعت نہیں کی جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اتر پردیش اے ٹی ایس کے اقدام کو عدالت نے قانون کی خلاف ورزی قراردیا۔ تصویر : آئی این این
اترپردیش اے ٹی ایس کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب عدالت نے دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت دو مختلف مقدمات میں گرفتار کئےگئے۱۱؍مسلم نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کیا۔ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس عطاء الرحمٰن مسعودی اور جسٹس منیش کمار نگم نے اس معاملہ میں گزشتہ ماہ اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ منگل کو جسٹس عطاء الرحمٰن مسعودی نے فیصلہ سنایا۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی ایکٹ یواے پی اے کی دفعہ۴۳؍(ڈی) کی خلاف ورزی کئے جانے پر ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی۔ بنچ نے اپنے اہم فیصلہ میں کہاکہ تفتیشی ایجنسی متعین مدت میں چارج شیٹ عدالت میں داخل کرنے میں ناکام رہی او ر تفتیش کیلئے اضافی وقت طلب کرتے وقت ٹرائل کورٹ نے ملزمین کے اعتراضات کی سماعت نہیں کی جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے میں عدالت نے تکنیکی بنیاد پر ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کرلی۔
جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئےاس کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں کرنے کے سبب ملزمین کو ضمانت دے دی گئی اورہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دیگر مقدمات میں بھی نظیر ثابت ہوگا جہاں مسلم نوجوانوں کو فرد جرم کے بغیر سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدرکھا جارہاہے۔
یہ بھی پڑھئے: اردگان کا اسرائیل کوجنگ بندی پر مجبور کرنے کا عزم
انہوں نے ۱۸؍ماہ بعدمسلم نوجوانوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان نوجوانوں کے اہل خانہ کیلئے بھی انتہائی خوشی کا موقع ہے۔ مولانا مدنی نے اس پر بھی سخت مایوسی ظاہر کی کہ پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں جان بوجھ کر مقدمات میں رخنہ ڈالتی ہیں اور وہ اس کیلئے مختلف حیلے اور بہانوں کا استعمال کرتی ہیں۔ گرچہ تین ماہ کے اندر فرد جرم کا التزام ہے، تاہم زیادہ تر معاملہ میں اس سے روگردانی کرتے ہوئے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ملزمین کو زیادہ عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا ہوتا ہے۔ گرفتار مسلم نوجوانوں کا تعلق سہارنپوراورمظفرنگر کے علاقہ سے ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے اس معاملہ میں قانونی پیروی کرنے والی جمعیۃعلماء قانونی ٹیم کی بھی ستائش کی۔ انہوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی جانبداری اور تعصب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شہری کو انصاف کے حصول سے دانستہ محروم رکھنے کی کوشش انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ ہم مسلسل اس سنگین ناانصافی کے خلاف آوازاٹھارہے ہیں لیکن پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کی کوئی جواب دہی طے نہیں کی جاتی چنانچہ وہ بے خوف ہو کر قانون کے نام انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امید افزابات ہے اورپہلی بارایسا ہواہے کہ جب مقررہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں کرنے پر عدالت نے ملزمین کو ضمانت پر رہائی کے احکامات صادرکئے۔ مسلم نوجوانوں کو سینئر ایڈوکیٹ او پی تیواری، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقان پٹھان اور ایڈوکیٹ مجاہد احمدپر مشتمل جمعیۃ علماء ہند کی قانونی ٹیم نے مدد فراہم کی۔ جن نوجوانوں کوضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا ان کے نام لقمان احمد، محمد حارث، آس محمد، محمد علیم، محمدنوازش انصاری، مدثر، محمد مختار، قاری شہزاد اور علی انور ہیں۔ ان پر الزام عائد کیاگیا تھاکہ وہ ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینا چاہتے تھے جبکہ یو پی اے ٹی ایس نے ہی جیش نامی تنظیم سے مبینہ تعلق کے الزامات کے تحت محمد ندیم اور حبیب السلام کو گرفتار کیا تھا۔
مولانا ارشد مدنی نے کیا کہا ؟
جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا ارشدمدنی نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ انہوںنے کہاکہ متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں کرنے کے سبب ملزمین کو ضمانت دے دی گئی اورہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دیگر مقدمات میں بھی نظیر ثابت ہوگا جہاں مسلم نوجوانوں کو فرد جرم کے بغیر سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رکھا جا رہا ہے ۔ انہوںنے ۱۸؍ماہ بعد مسلم نوجوانوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان نوجوانوں کے اہل خانہ کیلئے بھی انتہائی خوشی کا موقع ہے۔پولیس اور ایجنسیاںدانستہ مقدمات میںرخنہ ڈالتی ہیں۔