Updated: April 24, 2024, 9:10 PM IST
| Washington
امریکی حکومت نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ کچھ برسوں میں حقوق انسانی کی اہم خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدیاں، من مانی گرفتاریاں اور حراستیں اور صحافیوں اور میڈیا اداروں کی نگرانی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے اقتداروالی ریاستوں میں حکومت نے مسلم طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے مکانوں، دکانوں، دفاتر یا جائیداد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسمار کیا ہے۔
پیر کو امریکہ کی جانب سے شائع کردہ سالانہ ملکی رپورٹ میں ہندوستان میں اہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگیاں ، من مانی گرفتاریاں اور حراستیں اور سیول سوسائٹی کے کارکنان اور صحافیوں کی نگرانی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ، جس کا عنوان’ ۲۰۲۳ءہیومن رائٹس رپورٹ‘ ہے اور اسے امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے جاری کیا ہے، کو بیورو آف ڈیموکریسی ،ہیومن رائٹس اینڈ لیبرآف دی یو ایس ڈپارٹمنٹ شامل ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ منی پور میں کوکی اور میتی برادری کے درمیان نسلی تنازعے میں اہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ۳؍ مئی کو منی پور میں کوکی اورمیتی برادری کے درمیان تشدد پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں ۲۱۹؍ سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے تھے۔ تشدد کے نتیجے میں ۶۰؍ ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: پیرو کی سائیکولوجسٹ اینا ایسترادہ کی یوتھنیشیا سے موت
رپورٹ کے مطابق ہندوستانی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ان حکام کو سزا دینے یا ان کی شناخت کرنے کیلئے کم سے کم قابل اعتماد اقدامات کئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی متعدد رپورٹس ہیں جن میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت یا اس کے نمائندوں نے من مانی یا غیر قانونی قتل کئے ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے۔
امریکی رپورٹ میں گزشتہ سا ل اپریل میں اترپردیش کے پریاگ راج میں سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمان عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے قتل کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ عتیق احمد اور اشرف احمد پر تین افراد ، جنہوں نے اپنے آپ کو صحافی بتایا تھا، نے اس وقت شوٹ کیا تھا جب پولیس افسران انہیں میڈیکل چیک اپ کیلئے لے جا رہے تھے۔ اس کے بعد اترپردیش حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ اس قتل میں پولیس کا کوئی قصور نہیں ہے۔
رپورٹ میں گزشتہ سال جولائی میں جے پور سے ممبئی آنے والی ٹرین میں چیتن سنگھ کے ذریعے تین مسلم مسافروں اور ایک آر پی ایف کے حکام کے قتل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کیس کے عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ چیتن سنگھ متاثرین کو تلاش کرنے کیلئے ۴؍ کوچ سے گزراتھا اور اس نے انہیں قتل کرنے سے پہلے ان کے نام بھی دریافت کئے تھے۔
میڈیا کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں ۳؍ مسافروں کے اہل خانہ نے اس حادثہ کو ’’نفرت پر مبنی جرم‘‘ اور ’’دہشت گردانہ کارروائی‘‘ قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۶ء تا ۲۰۲۲ء ہندوستان میں ۸۱۳؍ ماورائےعدالت قتل کے معاملات درج کئے گئے تھے جن میں سے زیادہ واقعات چھتیس گڑھ اور اترپردیش میں پیش آئے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں حکومتی اداروں کی جانب سے گمشدگیاں بھی کروائی گئی ہیں۔ اس طرح کے الزامات بھی ہیں کہ پولیس حراست میں لئے گئے افراد کیلئے ضروری حراستی رپورٹس درج کرنے میں ناکام ہوئی تھی جس کے سبب ان گمشدگیوں کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔
یہ بھی پڑھئے: تہاڑ جیل میں وزیر اعلیٰ کیجریوال کو پہلی بارانسولین دیا گیا
امریکی حکومت کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’من مانی سے حراست میں لئے جانے کی بھی نمایاں رپورٹس ہیں اور اس کی بھی کہ پولیس نے گرفتاریوں کے عدالتی جائزے ملتوی کیلئے مخصوص قوانین کا استعمال کیا تھا۔‘‘ رپورٹ میں ہیومن رائٹس گروپ پیپلس یونین فار سیول لبرٹیس کی تحقیق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۵ء تا ۲۰۲۰ء میں ۸؍ ہزار سے زائد حراستیں یو اے پی اے کے تحت عمل میں آئی ہیں۔پولیس نے لوگوں کو بغیر حراستی وارنٹ فراہم کئے یا ان کی شناخت کئے بغیر عدالتی تفتیش کیلئے انہیں حراست میں لیا تھا۔
تاہم، رپورٹس میں یہ بھی کہا گیاہے کہ ایسی بہت سی رپورٹس ہیں جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت نے مناسب عمل یا معاوضہ کےبغیر لوگوں کو ان کے گھرسے بے دخل کیا، ان کی جائیداد قبضے میں لے لی، غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلا دیئے۔ہیومن رائٹس کے کارکنان نے رپورٹ کیا کہ کچھ ریاستی حکومتوں نے خاص طورپر فرقہ وارانہ تشدد اور احتجاج کے واقعات کے بعد مسلم طبقے کو نشانہ بنایا اور ان کے گھر اورذریعہ معاش کو تباہ کرنے کیلئے بلڈوزرکا استعمال کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ سا ل میں بی جےپی کے اقتدار والی ریاستوں میں شہری انتظامیہ نے کسی جرم کے ملزمین کی غیرقانونی جائیداد کو تباہ کر دیا۔حالانکہ قانون میں ایسی کوئی دفعہ نہیں ہے کہ تعزیری اقدامات کے تحت جائیداد کو مسمار کر دیا جائے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہیومن رائٹس کے کارکنان نے نشاندہی کی کہ میڈیا کے وہ ادارے اور ان صحافیوں ، جنہوں نے حکومت کے خلاف تنقیدی رائے پیش کی ہو، کو کبھی حراست میں لیا گیا ، انہیں دھمکی دی گئی اور خوفزدہ بھی کیا گیا۔پولیس نے ان صحافیوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارےاور ان کے لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک میں دہشت گردانہ اور ماورائے عدالت قتل ،تشدد اور حکومت کے خلاف تنقید کرنے والے صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کی بھی متعدد رپورٹس ہیں۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور غیر حکومتی اداروں کے ذریعےا یسی بھی رپورٹس ہیں کہ قومی اور مقامی سطح پر حکومتی حکام نے جسمانی استحصال اور حملوں ، مالکان پر دباؤ ڈالنے کے ذریعے، اسپانسرس کو نشانہ بناکے اور کچھ علاقوں میں کمیو نی کیشن خدمات ، جیسے انٹرنیٹ یا موبائل ٹیلی فون ،کو بلاک کر کے اور نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کر کے میڈیا اداروں کو دھمکانے یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے یا ان میں خلل ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ تاہم ، رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہندوستانی حکومت نے کثرت سے ڈجیٹل میڈیا کے صارفین کی بھی نگرانی کی ہے جن میں چیٹ رومس اورپرسن ٹو پرسن کمیو نی کیشن شامل ہے۔